[ad_1]
غزہ پر اسرائیل کی درندگی اور ہندوستان کی عوام
اہل ِ غز ہ پرا سرائیل کے وحشیانہ حملے کو آج ستائیس دن گزر چکے ہیں لیکن حماس کے جاں باز اپنی بے سر و سامانی کے باوجود یہودیوں کے آگے گٹھنے ٹیکنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ وقت بہت قریب تھا جب کئی عربی ممالک اسرائیل کو ایک منظم ملک ماننے کے لیے تیار تھے۔ اسرائیل نے ہمیشہ سے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ دنیا اس بات کو بھو ل جائے کہ کبھی یہودی بے سر و سامان دنیا بھر میں سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈ رہے تھے اور ایسے مشکل وقت میں فلسطینیوں نے انہیں پناہ دی۔ اب دیکھ لیجئے ہر کس و ناکس کو یہ بات پتہ ہیں کہ اسرائیل کا در حقیقت کوئی وجود نہیں۔ یہ بس ایک ناجائز قبضہ ہے۔ اسرائیل،امریکہ اور دیگر مغربی ممالک جتنا چاہیں میڈیا کا گلہ دبائے رہیں اب تو یہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ 9061فلسطینیوں کی شہادت کے باوجود، جن میں سے زیادہ تعداد عورتوں اور معصوم بچوں کی تھی، اسرائیل فوجی، اخلاقی اور سیاسی معیار پر حماس سے ہار چکا ہے۔
اسرائیل کو جس فوجی قوت پر گھمنڈ تھا، وہ آج بھی غزہ میں بے سر و سامان بھوکے پیاسے حماس کے جانبازوں سے آمنے سامنے کی لڑائی لڑنے سے ڈر رہی ہے۔ ہٹلر کے ہاتھوں مظلوم بن کے اسرائیل نے دنیا بھر سے جو خود کے لیے رحمدلی کی ساکھ بنا رکھی تھی وہ غزہ کے الاہلی اسپتال پر حملے کے ساتھ ہی ٹوٹ گئی۔ دوسری طرف حماس نے اپنے قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کر کے دنیا کے آگے یہ ثابت کر دیا کہ اصلی دہشت گرد کون ہے۔ UN میں اسرائیل کے خلاف جنگ بندی کی قرار داد نے اسرائیل کو سیاسی طور پر بھی غلط ثابت کر دیا ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود سوشیل میڈیا پر جھوٹی خبروں اور افواہ کا ایک بازار گرم ہے۔ ایک طرف مودی حکومت نے قرار داد سے غیر حاضر رہ کر دنیا بھر کو یہ سمجھا دیا ہے کہ ان کے لیے امن اورانسانی جان سے بڑھ کر اپنی کرسی اور دوستی ہے۔ تو دوسری طرف اندرون ِ ملک افواہ کا ایک ایسا بازار گرم ہے جو مظلوم اہل ِ غزہ کی تکلیفوں میں اضافہ کر رہا ہے۔
یہ بات تو روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مودی سرکار اب تک حکومت کی کرسی پربیٹھی ہی اس لیے ہے کہ لوگوں کو باٹنے میں اور ایک قوم کے لیے دوسری قوم کے دل میں نفرت بھرنے میں ان سے اچھا کوئی نہیں۔ ہندوستان کی کل آبادی 140کروڑ ہے جن میں سے قریبا60کروڑاسمار ٹ فون استعمال کرنے والے لوگ ہیں۔ جب سے فلسطین اور حماس کا معاملہ سامنے آیا ہے ٹویٹر (ایکس) پر ایسے کئی یوزر ہیں جو پوری طرح اسرائیل کی حمایت میں فرضی خبریں اور افواہ پھیلانے میں لگے ہیں۔ اس طرح کے سوشیل میڈیا پر زیادہ لوگوں کی اظہار رائے بہت معنی رکھتی ہے اور اگر ایک خاص قوم کو نشانہ بنا کر ایک بڑی جماعت دن رات متحرک رہے تو عوام کی رائے میں بھی اس سے فرق پڑتا ہے۔
ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں جن میں فلسطین کے خلاف مبینہ زہر افشانی کی جا رہی ہے۔ الجزیرہ کے مطابق ایکس پر ایک اکاؤنٹ جو خود کو وظیفہ یاب ہندوستانی فوجی بتاتا ہے اس کے مطابق ”اسرائیل کو پورا حق ہے کہ فلسطین کو صفحہ ہستی سے مکمل طور پر مٹا دے۔“اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک انتہا پسند جماعت نے لوگوں کے دلوں میں صرف اپنی سیاسی مفاد کے لیے زہر گھول رکھا ہے۔ اور اسلام کے اس ڈر(Islamophobia)کو پھیلانے میں بی جے پی کی آئی ٹی سیل کا بڑا ہاتھ ہے۔
ایلون مسک نے جب ٹویٹر کو خریدا تھا تب انہوں نے عوام کو متاثر کرنے کے لیے بڑے دعوے کئے تھے کہ کس طرح وہ آن لائن نفرت اور جھوٹی خبروں کا سد ِ باب کرنے والے ہیں۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد یہ بھی پہچاننا مشکل ہو گیا کہ اصلی اور نقلی اکاؤنٹ کس کا ہے ایسے میں اس بات کے کتنے امکانات ہیں کہ ایکس پر جھوٹی خبروں کو نشر ہونے سے روکا جا سکا ہو۔ اس کے بر عکس یوروپی یونین کو ایلون مسک کو وارننگ دینی پڑی کہ اسرائیلی دہشت گردی کو لے کر جھوٹی خبروں پر انہیں نظر رکھنی چاہئے۔
ایکس پر ایک ویڈیو کو جم کر نشر کیا جانے لگا جو لگ بھگ دھندلا تھا اور جس میں یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ حماس کا ایک سپاہی کچھ اسرائیلی لڑکیوں کو بطور یرغمال ایک بس میں بٹھا رہا ہے تا کہ انہیں جنسی استحصال کے لیے بیچا جا سکے۔ یہ ویڈیو در اصل ایک فلسطینی اسکول کا تھا جہاں لڑکیاں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے اور موبائیل فون چلاتے ہوئے بس کے اندر جا رہی ہیں۔ اس ویڈیو کو کسی ہندوستانی اکانٹ سے نشر کیا گیا اور قریبا 6لاکھ لوگوں نے اس پر اپنی رائے دی۔ یہی ویڈیو ٹیلی گرام میں بھی ایک اینگری صفرون نامی چائنل میں نشر کیا گیا یہ چائنل بھی ہندوستانی ہے۔ ایسے ویڈیو ز کی سوشیل میڈیا پر بھر مار ہے جن میں یہ دعوی کیا جا رہا ہو کہ کوئی فلسطینی کسی بچے کو قتل کر رہا ہے یا اغوا کر رہا ہے۔ انہیں نشر کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ویریفائڈ ہندوستانی اکاؤنٹس کی ہوتی ہے تو یہاں اسلام کے خلاف لوگوں کے دلوں میں کس قدر نفرت بھری جا رہی ہے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔
بہر حال اس وقت اسرائیل اپنی دنیاوی طاقت کے نشے میں چور ہے۔ وہ قوم جس کی تاریخ غلامی اور مغلوبی سے بھری پڑی ہے آج دنیا کے آگے شیر بننے کا دعوی کر رہی ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے۔ سرکار دو عالم ﷺ فرماتے ہیں ”لا تقوم الساعۃ حتی تقاتلوا الیھود حتی یقول الحجر وراء ہ الیھودی یا مسلم ھذا یھودی ورائی فالقتلہ“ یعنی قیامت تب تک نہیں آئے گی جب تک تم قوم ِ یہود سے جنگ نہ کرو یہاں تک کہ دوران ِ جنگ جب ایک یہودی کسی پتھر کے پیچھے چھپ جائے گا تو وہ پتھر ایک مسلمان کو آواز دے کر بلائے گا کہ اے خدا کے بندے! یہ میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہے، آ اور اسے جہنم رسید کر دے۔ قیامت کی کئی نشانیاں پوری ہو چکی ہیں اور کئی ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے کہ بدلتے حالات کے ساتھ خود کو بدلیں، اور جس طرح بھی ممکن ہو دین ِ محمدی ﷺ کی آن بان اورشان کے لیے امت ِ مسلمہ کی بھلائی میں لگ جائیں۔ ہمارا ہر چھوٹا بڑا قدم کہیں نہ کہیں اثر دکھا تا ہے۔ اور اگر تبدیلی نہ بھی ہو تو کم از کم قیامت کے روز فلسطین کے بچوں کے آگے شرمندہ تو نہ ہونگے۔
[ad_2]
Source link