ملک کے حالات دن بدن بگڑتے جارہے۔ فرقہ واریت کی آگ پورے ملک کے امن وامان کو بھسم کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ حکومت اور اربابِ حکومت بھی ہندوستان کی جمہوریتی آئین کی پاسداری کے بجائے مذہبی آزادی کو سبوتاژ کرنے لگے ہوئے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہاں جمہوریت وسیکولرزم نہیں بلکہ سامراجیت اور بربریت کی حکومت قائم ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑھ رہا ہے کہ ہمارے ملک کے وزیراعظم بھی کسی ایک خاص فرقہ کی نمائندگی کرتے نظر آرہے ہیں۔ بالخصوص بھاجپا سرکار میں فرقہ واریت اور اشتعال انگیزی کو خوب پنپنے کا موقع ملا۔ کہنے کے لیے آئین میں مذہبی آزادی کے دفعات منقوش ہیں۔ لیکن اس آئین کے دفعات پر عمل نا کے برابر ہے۔ قانون کے رکھ والے ہی قانون شکن ہیں تو پھر کیا امید کی جاسکتی ہے۔ بھارت کی انفرادی خصوصیت کثرت میں وحدت ہے۔ آج کل یہ خصوصیت مفقود ہوکے رہ گئی۔ آزادی اظہار خیال کے نام پر کچھ نام نہاد فرقہ پرست دہشت گرد مذاہب کے خلاف اشتعال انگیزیاں اور کیچڑ اچھالنے کا کام کرتے ہیں۔ایک خاص طبقے کو نشانہ بناکر قتلِ عام اور غارتگری کا زہر اگلتے رہتے ہیں۔ تب ہمارے قانون کے رکھ والوں کو یہ نظر ہی نہیں آتا۔ چلئے جیسے بھی ہو خدا ہماری حالت زار پر رحم کرے۔ بات نکل گئی تو ہم نے کہہ دیا اسے آپ فریاد رسی سمجھیں یا ہماری مجبوری۔ کیا خوب قلندرِ لاہوری علامہ اقبال نے
ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصّۂ درد سُناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
سازِ خاموش ہیں، فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
برسرِ مطلب آمدم ملک کے ان سنگین حالات کے پیش نظر اربابِ حکومت کو چاہیے کہ ان حالات کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ مندر مسجد کا جو سیاسی کھیل جاری ہے اسکے خاتمہ کے لیے کچھ حل نکالا جائیں۔ اس کے برعکس ہمارے ملک کے مرکزی وزیر داخلہ جناب امیت شاہ شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کی بات چھیڑ کر تازہ زخم پر نمک چھڑکنے کا کام کررہے ہیں۔
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ، نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
عالی جناب کہتے ہیں کہ 2024 کے لوک سبھا الیکشن سے پہلے ہم شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کریں گے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ یہ سی اے اے کا نفاذ نہیں بلکہ بھاجپا ووٹ بینک مضبوط کا خفیہ ایجنڈا ہے۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہوگا کہ سی اے اے کے نفاذ سے ہمیں کیا پریشانی ہے۔ تو سنئے ہم اس ملک کے باشندے ہیں۔ ہمارا قومی وملی فریضہ ہے کہ ہم ملک کے آئین اور دستور کی حفاظت کریں۔ اور اس میں مداخلت کی اجازت نہ دی جائیں۔ تو یہ سی اے اے ملک کے آئین کے عین مخالف ہے۔ تفصیل ملاحظہ کریں یہ سی اے اے کا نفاذ بنیادی حقوق کی پامالی کے عین مترادف ہے ، مثالً مذہبی مساوات دفعہ 14، جینے کا حق دفعہ 21 ،غیرجابنداری دفعہ 15اور اس کے علاوہ دستورہند کے ابتدائیہ میں درج سیکولر کردار کی بھی عین متضاد ہے۔
شہریت ترمیمی بل 2016 میں لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے پڑوسی ممالک افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ہندو مہاجرین کو ہندوستان کی شہریت دی جائیں۔ اور 1955کے قانون میں تھوڑی ترمیمی واضافہ کیا جائیں۔ جس وقت ایوان میں یہ بل پیش کیا جارہا تھا تب ہی ملک کے مختلف جگہوں سے اس کی سختی سے مخالفت کی جارہی تھی اس شدید مخالفت کی تناظر میں اس بل کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ تاکہ ملک کا امن وامان باقی رہیں۔ باشندگانِ ہند کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ اس بل کے تنازعہ میں جعفرآباد مٹرو اسٹیشن دہلی میں سن 2020 فروری کو ہجوم تشدد ہوا تھا پھر یہی ہجومی تشدد فسادات میں بدل گیا۔ 2019کو کیرالا کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے ایک قراداد پاس کیا اور کہا کہ یہ سی اے اے کا نفاذ سکولر نقطۂ نظر اور ملک کے تانے بانے کے خلاف ہے۔ پھر اسکے بعد پنجاب، راجستھان اور مغربی بنگال نے اسمبلی میں اس کے خلاف قراردادیں پاس کیں۔ اور مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ ہم ہماری ریاست میں کبھی سی اے اے، ین آر سی اور ین پی آر کے نفاذ کی قطعی اجازت نہیں دیں گے۔
یہ مخالفت کی ایک چھوٹی سے جھلک ہے۔ جب ین آر سی کی بات کی جارہی تھی تب پورے اقلیتی طبقے کے لوگ شاہراہ عام پر سراپا احتجاج بن کر حکومت کو للکار رہے تھے۔ خدا کا کرشمہ کہئے کہ اسی وقت کورونا مہاماری نے سب کچھ بھلا دیا۔ اور جن اربابِ حکومت پر ین آر سی کا بھوت سوار تھا وہ فورا اتر بھی گیا۔ پھر سے ایک بار جناب امیت شاہ ملک کے اقلیت کو للکار رہے ہیں۔ بالخصوص سی اے اے کی نفاذ کی بات کہہ کر مسلمانوں کو دو نمبر کا شہری ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہندو مسلم کھیل کھیل کر پھر حکومت کی گدی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا اور ہونا بھی نہیں چاہئے۔ امیت شاہ کہتے ہیں کہ سی اے اے سے ہندوستانی باشندوں کو کچھ بھی نقصان نہیں ہوگا لیکن آسام میں جو ہوا وہ اس کے خلاف ہے۔ پڑوسی ممالک کے ہندو باشندوں کو شہریت دینے کے ہم مخالف نہیں ہیں۔ لیکن شہریت دینے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہندوستانی باشندوں کی شہریت چھین کر دوسروں دیں۔ اور یہاں جو صدیوں سے رہتے آئے ہیں ان کی شہریت میں آپ شکوک پیدا کرکے انہیں مشکوک شہری بنا دیں۔ ہندوستان کے چند ریاستوں میں مشکوک باشندوں کے لیے کیمپوں کا بھی انتظام زور و شور سے چل رہا ہے۔ تو بات جگ ظاہر ہے کہ یہ سی اے اے، ین آر سی اور ین آر پی کا نفاذ ملک کے بھلائی کے لیے نہیں بلکہ یہاں کے جمہوری فضا کو مسموم کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ گویا وزیر داخلہ سی اے اے کی بات چھیڑ کر اقلیتی طبقوں کو سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ لہذا ہم ارباب حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ سی اے اے اور دیگر ڈھکوسلہ قانون کو آئین مخالف قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائیں۔ اور ملک کی فضا کو مسموم کرنے کی کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے سپریم کورٹ بھی ایک مضبوط فیصلہ لیں۔ خدا ہمارے ملک اور آئین کی حفاظت فرمائے۔