ہندو-مسلم نہیں بلکہ ہندوستان خطرے میں ہے
ہندوستان میں مٹھی بھر خودغرضوں اور اِبن الوقتوں نے ایوان سیاست میں جو تکدر کاماحول بپا کر رَکھا ہے اُس کا نظارہ آزادی کے بعد سے اب تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ موجودہ عہد میں سیاسی دغابازی اور مذہبی فریب کاری اِس قدر عنفوان شباب پر ہے کہ کون لیڈر، کب کس سیاسی جماعت کو لات مار دے اور کون لیڈر، کب کس مذہب کے خلاف زہر افسانی کرنے لگے اِس سلسلے میں کچھ بھی کہنا بڑا مشکل ہے۔ پھر سیاسی ومعاشرتی اور مذہبی وعلاقائی سطح پر آپسی اعتماد واعتبار اور اُخوت ومروت کا جنازہ تو اُٹھ ہی رہا ہے لیکن ہمارا جمہوریہ ہند جس تنزلی اور تباہی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے اُس کا احساس ہم میں سے کسی کو نہیں ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ یہ جانتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ ہمارا ملک ومعاشرہ بربادی کے آخری دہانے پر پہنچ چکا ہے مگر ہم میں کا کوئی فرد ملک وملت کی آبرو جمہوریہ ہند کے تحفظ کی ترکیبیں نہیں تلاش کررہا ہے۔ اِس کے برخلاف کبھی مذہب کے نام پر، کبھی طبقات وبرادری کے نام پر اور کبھی علاقہ اور زبان وبھاشا کے نام پر ہم لوگ اَپنی اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے میں مصروف ہیں۔ کل جس رام-رحیم کے پر ملک ومعاشرے میں امن وآشتی کی خوشگوار فضائیں معرض وجود میں آتی تھیں آج اُسی رام-رحیم کے نام پر سیاسی مفاد پرسوں نے ملک ومعاشرے میں تعصب وتنفر کی آگ لگا رکھی ہے۔ ہندوستان کی جس گنگا-جمنی تہذیب کی مثالیں عالمی سطح پر دی جاتی تھیں آج اُسی گنگا-جمنی تہذیب کےحامل ملک ومعاشرے میں سیاسی اور مذہبی اِنتہا پسندی کا ساری حدیں پار کردی گئی ہیں اور عالمی سطح پر لوگ، جس ہندوستانی اتحاد ویگانگت سے سبق لیا کرتے تھے آج وہ، ہندوستان کو جرائم اور مجرمین کا ملک قرار دے رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق: سنگھا پور کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ’’ ہندوستان کا حال آج یہ ہوگیا ہے کہ اس ملک میں تقریباً نصف فیصد ممبران پارلیمنٹ پر سخت ترین جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں، یہاں تک کہ اُن پر زِنابالجبر اور قتل وغارت گری جیسے دفعات کے تحت مقدمے درج ہیں۔‘‘ کسی بھی ملک کا نظام اور قانون اُس کی روح ہوتی ہے چناں چہ جس ملک میں نظام وقانون کا نفاذ مذہب اور ذات-برادری کی تفریق کے بغیر ہو رہا ہے تو اِس کا واضح مطلب ہے کہ اُس ملک کی روح برقرار ہے اور وہ ملک زندہ ہے۔ لیکن اِس کے برعکس اگر کسی ملک میں نظام وقانون کو مذہب اور ذات-برادری کا لبادہ اُوڑھا دیا گیا ہے تو اِس کا واضح مطلب ہے کہ اُس ملک کی روح برقرار نہیں ہے اور وہ ملک مُردہ ہوچکا ہے۔ لہٰذا ایسا ملک اپنے تمام تر وسائل اور سہولتوں کے باوجود ترقیاتی لذتوں سے محروم رہتا ہے اور اَیسے ملک کے حکمران طبقات نہ توعوام الناس کی خوشحالی سے کوئی غرض رکھتے ہیں اور نہ ملک کی فلاح وبہبود سے اُن کا کوئی ناطہ ورشتہ ہوتا ہے بلکہ اُنھیں تو محض اپنے عیش وعشرت اور اپنی تاناشاہی اور حکمرانی قوت سے پیار وشغف ہوتا ہے بس۔
اِس پس منظر میں دیکھا جائے تو آج ہندوستان کا حال اِس سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اکثریت واقلیت جنھیں دستور ہند میں بہرصورت مذہبی اُصول کے مطابق زندگی بسرکرنے، تعلیم وتعلّم کے میدان میں آگے بڑھنے، ملازمت وتجارت سے جڑنے اور تعمیر وترقی کی مختلف راہیں اختیار کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے، لیکن اِس کے باوجود اِقتدار پرستاران اور سیاسی مفادپرستان، اُن کے بیچ مذہبی عصبیت ومنافرت پھیلا رہے ہیں اور اَپنے وعدوں کو پورا کرنے کے بجائے لاحاصل نعروں میں اُلجھاکر اُنھیں گمراہ کررہے ہیں۔ حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمران طبقات اپنے وعدے پوراکرتے اور اُن کا سارا زُور اور فوکس رُوزگار وملازمت کی فراہمی، حقوق باہم کی ادائیگی، بلیک مال کی واپسی، بدعنوانی کا خاتمہ، تعلیم وتعلّم کا فروغ، اقتصاد ومعاش کا استحکام، قومی وملکی یکجہتی، باہمی اتحادویگانگت، تحفظ نسواں وغیرہ کی ترویج واشاعت پر رہتا، لیکن اِس کے بجائے مندر-مسجد اور ہندو-مسلم کے راگ الاپے جارہے ہیں۔ باوجودیکہپیلس آف ورشپ ایکٹ کے تحت تمام مذہبی مقامات کو تحفظ حاصل ہے لیکن ہماری عدالتیں تحفظ عبادتگاہ ایکٹ کے خلاف، شنوائی کے لیے مقدمات قبول کررہی ہیں اور جنھیں جمہوریہ ہند کی محافظت کرنی تھی آج وہ بذات خود تحفظ عبادتگاہ ایکٹ کی بیخ کنی کررہی ہیں۔اِس کی واضح مثال یہ ہےکہ پیلس آف ورشپ ایکٹ کے باعث جس طرح کی عرضیاں 1997 میں عدالتوں کے نزدیک ناقابل سماعت تھیںآج اُسی طرح کی عرضیاں عدالتوں میں قابل سماعت تسلیم کی جارہی ہیں۔ اَیسے میں غور کریں توہندو-مسلم کو خطرہ ہے نہ منادر ومساجد کو خطرہ ہے۔ بلکہ اگر واقعی کسی کو خطرہ ہے تو وہ ہندوستان ہے کہ اُس کی بقا کو خطرہ ہے، دستور ہنداور جمہوریہ ہند کو خطر ہے، گنگا-جمنی تہذیب وثقافت کو خطرہ ہے اور اَکثریت واقلیت اتحادواتفاق کو خطرہ ہے۔ لہٰذا ہم ہندوستانیوں کو بالخصوص اِنتہائی چوکنا اور ہوشیار رَہنا ہے۔ اکثریت واقلیت تفریق کی جگہ بحیثیت ہندوستانی اتحادواتفاق اور ملکی یکجہتی کی فضا قائم کرنی ہے۔ا ہم میں سے ہر ایک ہندوستانی کو اَپنے اپنے دین و مذہب پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے آگے آنا چاہیے، اتحاد اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ہندوستان کی تعمیر وتشکیل اور اُس کی گنگا-جمنی فضاکی حفاظت وصیانت کے لیے ہمیشہ کمربستہ رہنا چاہیے۔ نیزجس طرح ہمارے آبا واجداد نے 1857-1947 کے درمیان اپنے اپنے دین ومذہب پر قائم رہتے ہوئے آزادی میں اجتماعی طور پر حصہ لیا اور جس اِتحادواِتفاق کے ساتھ انگریزوں کے حیوانی اور اِستحصالی پنجوں سے ہندوستان کو نجات دلائی، ٹھیک اُسی انداز میں آج ہم سب کو قدم بہ قدم ساتھ ساتھ چلنا ہوگا اور ہندوستانی مفادات کو نظرانداز کرنے اور ہندوستانی رنگ میں بھنگ ڈالنے والوں پر بروقت قدغن لگانا ہوگا۔ ورنہ بصورت دیگر کچھ ہو یا نہ ہولیکن دستورہند اورجمہوریہ ہند کا خاتمہ یقینی ہے اور اِس کا خمیازہ ہم میں سے ہر ایک ہندوستانی کو بھگتنا پڑےگا خواہ ہمارا تعلق اکثریت سے ہو یا اقلیت سے۔
القصہ! گزشتہ 77 برسوں سے ہم نے رُونے-دھونے، شکوہ-شکایت اور اِلزام دراِلزام کی جو رَوش اختیار کر رکھی ہے اُس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ چوںکہ یہ عہد، عمل وحرکت کا ہے اِس لیے ہم میں سے ہرایک ہندوستانی (اکثریت واقلیت) کو حکمت وتدبر کے ساتھ کچھ اَیسےعملی اقدامات کرنے ہوں گے جن کے باعث دستورہند کا وقار برقرار رَہ سکے اور جمہوریہ ہند کی ناقدری نہ ہوسکے اور ہمارے اقدامات اُسی صورت ملک ومعاشرے کے حق میں مفید تر ہوسکتے ہیں جب ہم مذہبی منافرت اور طبقاتی و علاقائی عصبیت سے اوپر اُٹھیں گے۔ بےشک ہم ہندوستانی جس دن دستورہند اور جمہوریہ ہند کے نام پر ایک ہوجائیں گے اور اپنی جمہوری اور دستوری طاقت وقوت کا استعمال کرنے لگ جائیں گے تو ہم، مندر کے نام پر لوٹے جائیں نہ مسجد کے نام پر، اور ذات-برادری کے نام پر اُلجھائے جائیں نہ علاقہ و زبان کے نام پر۔ اِس کے برعکس حکمرانوں سے کیے وعدے ہم پورا کرواسکتے ہیں، اُنھیں روزگار دینے پر مجبور کرسکتے ہیں، ملک ومعاشرے سے بدعنوانیوں اور بدعنوانوں کا خاتمہ یقینی بناسکتے ہیں، طبقاتی وعلاقائی اور مذہبی تفریق کا قلعہ قمع کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیںاور ملکی ہمہ جہت ترقیات میں اہم کردار نبھا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں کانگریس مکت یا فسطائی جماعت مکت جیسے جملوں کی جگہ مذہبی منافرت مکت، تفریق و جانبداری مکت، طبقاتی اونچ-نیچ مکت، علاقائی وبھاشائی عصبیت مکت، برادری چھوا-چھوت مکت، بدعنوانی مکت جیسے جملوں سے ہمارا کان آشنا ہوسکےگا اور رام-رحیم کے محبت آمیز نغموں سے ہم محظوظ ہوں گے۔ ایک طرف میرا-کرشن کا بھجن گایا جائےگا تودُوسری طرف چشتی اور نانک کے انسانیت کے ترانے گونجیںگےاوراِس طرح ہمارا جمہوریہ ہندمستحکم ومضبوط ہوگا اور اِسی کے ساتھ ہمارے ملک کی مذہبی وقومی یکجہتی کی فضا بحال ہوگی۔ ورنہ بصورت دیگر جمہوریہ ہند تباہ و برباد ہوجائےگا اور اِس کا وبال ہرہندوستانی کے سر ہوگا۔