[ad_1]
شیلا دکشت کے دور حکومت کو دہلی میں ترقی اور بہترین حکمرانی کی مثال کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ عوام، خواہ وہ کسی بھی پارٹی کے حامی ہوں، ان کی قیادت کو سراہتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے
دہلی میں انتخابی تاریخوں کا اعلان ہو گیا ہے لیکن یہاں انتخابی سرگرمیاں کیجریوال کی ضمانت کے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھیں۔ انتخابی سرگرمیوں کے تعلق سے اگر کہا جائے تو بی جے پی ہی سب سے پیچھے رہی اور اس نے ہی انتخابی سرگرمیوں کی سب سے آخر میں شروعات کی۔ عام آدمی پارٹی کو یہ احساس ہے کہ دس سال سے اقتدار میں ہونے وجہ سے اسے اقتدار مخالف لہر کا سامنا ہے اور کسی حد تک اس کے وعدوں اور نعروں کی بھی پول کھل گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے سب سے پہلے انتخابی مہم شروع کر دی۔ کانگریس جو سال 2013 کے بعد سے دہلی میں اقتدار میں نہیں رہی ہے، اس نے بھی ’دہلی نیائے یاترا‘ کے ذریعے اپنی انتخابی مہم شروع کی، جس کا اس کو اس لحاظ سے فائدہ بھی ہوا کہ دہلی کے عوام اس کے بارے میں سوچنے لگے۔
کیجریوال کے خلاف کانگریس کے امیدوار سندیپ دکشت خوب کھل کر کہہ رہے ہیں کہ کیجریوال نے اس لیے استعفیٰ دیا کیونکہ ان کی ضمانت کی شرائط میں وزیر اعلیٰ کے دفتر میں نہ جانا اور فائلوں پر دستخط نہ کرنا شامل تھا، اس لیے انہوں نے اپنی جگہ آتشی کو وزیر اعلیٰ بنایا اور آگے بھی جب تک ضمانت کی یہ شرائط عائد ہیں وہ وزیر اعلیٰ نہیں بنیں گے۔ سندیپ دکشت یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ جب ان کی والدہ کے خلاف کوئی کیس کیجریوال نہیں کر پائے تو انہوں نے ان کو بدنام صرف انتخابی فائدوں کے لیے کیا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کانگریس نے اب تک جن رہنماؤں کو پارٹی کا امیدوار بنایا ہے انہوں نے عام آدمی پارٹی کی نیند اڑا دی ہے۔
عام آدمی پارٹی ان انتخابات کو اپنے اور بی جے پی کی بیچ کی لڑائی بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے لیے وہ بی جے پی اور الیکشن کمیشن کو اپنے حملے کا ہدف بنا رہی ہے۔ اس سارے معاملے میں بی جے پی اور خاص طور سے وزیر اعظم بھی اس کو ’آپ دا‘ کہہ کر اس کی مدد کر رہے ہیں اور یہ سب دونوں اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ دونوں کانگریس کو اقتدار سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ کیجریوال جن کا مرکزی انتخابی مدعا جہاں بجلی اور پانی تھا وہیں ’جن لوک پال‘ اور سادہ زندگی کو انتخابات میں خوب بھنایا تھا اور دہلی کے عوام کو کیجریوال میں سیاست کی تبدیلی کی علامت نظر آئی تھی۔ اسی وجہ سے انہوں نے انہیں 70 میں سے 67 سیٹیں پہلی مرتبہ دی تھیں۔ ظاہر ہے بجلی، پانی یا خواتین کو بس میں مفت سفر کرنے کے لیے کیجریوال گھر سے تو کچھ نہیں دے رہے، جو بھی ہے وہ دہلی کے عوام کے ٹیکس کے پیسے سے ہے جو کوئی بھی حکومت دے سکتی ہے اور دے رہی ہے لیکن وہ نہ تو دہلی کے عوام کو جن لوک پال دے سکے اور نہ ہی سادگی سے زندگی گزارنے کے اپنے کہے ہوئے پر عمل کر سکے۔
کیجریوال کی رہائش گاہ یعنی ’شیش محل‘ اور بدعنوانی کے معاملے میں اعلیٰ قیادت کا جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے سے عوام کے ذہنوں میں ان کی شبیہ خراب ہوئی ہے اور اب وہ اپنی شبیہ کو بہتر کرنے کے لیے بی جے پی پر تنقید کر کے اور خواتین کو راغب کرنے کے لیے نئی نئی اسکیموں کا اعلان کر رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کی پنجاب حکومت نے 3 سال گزرنے کے بعد بھی خواتین سے کیے گئے وعدے کے مطابق ایک ہزار روپے ادا نہیں کیے ہیں، اس لیے ان کے اعلانات پر بھی سوال اٹھائے جا رہے۔ دوسرا یہ کہ کیجریوال نے اپنی رہائش گاہ کو خوب عالیشان بنایا اور اس پر کھل کر حکومت اور عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ کیا گیا۔
جہاں تک بدعنوانی کا تعلق ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پورے ہندوستان میں انتخابات لڑنے کے لیے فنڈ تو درکار ہوتے ہیں۔ جہاں تک انتخابی اعداد و شمار پیش کیے جا رہے ہیں تو صرف یہ جاننا ضروری ہے کہ سال 2013 میں عام آدمی پارٹی کہیں بھی نہیں تھی اور اعداد و شمار کے اعتبار سے اس کے آگے صفر لکھا جاتا تھا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ عام آدمی پارٹی کو دہلی کے عوام نے کافی مقبولیت بخشی۔ اب یہ کہنا کہ کانگریس کو پچھلے انتخابات میں زیادہ فیصد ووٹ نہیں ملے اس لیے اس مرتبہ بھی نہیں ملیں گے اور مقابلہ عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان ہے، ایک بڑی سازش ہے۔ زمینی حقیقت کو دیکھا جائے تو جتنے بھی لوگوں سے بات کی جائے کہ شیلا دکشت کا دور کیسا تھا؟ تو چاہے بی جے پی کے حامی ہوں یا عام آدمی پارٹی کے حامی، سب اس دور کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link