اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تخلیق فرما کر جنّت میں مقیم فرمایا۔ حضرت آدمؑ نے تمام نعمتوں کے باوجود تنہائی و کمی محسوس کی تو اﷲ تعالیٰ نے حضرت حوا کو پیدا فرمایا، یہ حقیقت ہے کہ عورت کا وجود کائنات کی تکمیل کرتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورت انسانی نسل کے استحکام اور نشوونما کے لیے پیدا فرمائی گئی۔ انسانی تعمیر و ترقی، انسانی معاشرے کے قیام اور جسمانی و روحانی آسودگی عورت ہی کے باعث ہے۔ عورت ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کی شکل میں اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اسلام نے عورت کو مرد کے برابر مقام و مرتبہ عطا فرما کر اس کی حیثیت متعین کردی ہے بل کہ اسے مقام بلند عطا فرمایا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا اگر ہم جائزہ لیں، تو ان کی ترقی کی بڑی وجہ تعلیمی میدان میں ان کی ترقی ہے۔ جس ملک کے تعلیمی ادارے آباد ہوں اور ان میں شب و روز حصول علم اور تقسیم علم کا سلسلہ جاری رہتا ہو وہ ملک کبھی بھی زوال پزیر نہیں ہوتا۔ آج کے زمانے میں تعلیم کی افادیت سب پر آشکارا ہے۔ ہماری ناقص العقلی ہے کہ ہم نے تعلیم کو اتنی اہمیت نہیں دی اور اگر کچھ دی بھی ہے تو وہ بھی صرف مرد حضرات کو دی ہے اور یہ کہتے ہوئے کہ عورت کو صرف گھر بیٹھنا چاہیے، اسے تعلیم دے کر کیا کرنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو ہمیشہ دوسرے درجے کی حیثیت دی گئی ہے اور یہ غلط فہمی تقریباً عام ہے کہ عورت ناقص العقل ہے لیکن جو عورتیں زیور تعلیم سے مکمل طور پر آراستہ ہوتی ہے تو وہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے ہر میدان میں حالات کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔
تعلیم نسواں دراصل دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ تعلیم کا معنی علم حاصل کرنے کے ہیں۔ جب کہ نسواں عربی زبان کے لفظ نساء سے ماخوذ ہے، یعنی خواتین کا علم حاصل کرنا۔ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ گاڑی کبھی ایک پہیے سے نہیں چلتی سکتی۔ اس کے لیے دونوں پہیوں کا صحیح حالت میں ہونا لازم ہے۔ اگر کسی وجہ سے ایک پہیہ ٹوٹ جائے یا سرے سے ہو ہی نہ تو گاڑی چل نہیں سکتی، اس کا چلنا ممکن ہی نہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ پرندے کے دو پروں میں سے ایک ٹوٹ جائے تو پرندہ اُڑنے کے قابل نہیں رہتا۔ یہی حال ہمارے معاشرے کا ہے، جس میں مرد اور عورت دونوں کی اہمیت یک ساں ہے۔
تعلیم کی افادیت:
آج کے اس پُرآشوب اور تیز ترین مقابلے و مسابقت کے دور میں تعلیم کی ضرورت انتہائی اہمیت حاصل کر گئی ہے۔ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے۔ ایٹمی ترقی کا دور ہے۔ سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے۔ بنیادی عصری تعلیم، ٹیکنیکل، انجینیرنگ، وکالت، طب و جراحت اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان سب علوم کے حصول میں اسلامی حدود و قیود کا ازحد خیال رکھا جائے۔ یعنی جدید علوم کے ساتھ دینی تعلیم کی بھی اہمیت مسلَّم ہے۔ اس کے ساتھ انسان کو انسانیت کی تعمیر و ترقی اور اس دنیا کو بہ مثل جنت بنانے کے لیے اسلامی اور اخلاقی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے، جدید تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم مرد و زن کو ایک مفید انسان کے پیکر میں ڈھال دیتی ہے۔ اسی تعلیم کی وجہ سے دنیا میں خدا خوفی، عبادت، محبت، خلوص، ایثار، خدمت خلق، وفاداری اور ہم دردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ دینی و اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح اور نیک معاشرے کی تشکیل ہوسکتی ہے۔
اسلام میں خواتین کے لیے علم کی اہمیت:
اسلام نے خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنے کو انتہائی ضروری بلکہ فرض قرار دیا ہے۔ خاتم الانبیاء رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ کے پاس خواتین بھی آتیں اور آپ ﷺ اپنے قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت ان کے پڑھانے میں صرف کرتے۔ ہمارے دین کا آغاز بھی غار حرا میں علم سے ہُوا۔ نبی کریم ﷺ کے دور میں بعض خواتین، خواتین ہی سے اپنے دینی مسائل کے بارے میں استفسار کرتی تھیں۔ آپ ﷺ کی ازواج مطہراتؓ بھی خواتین کو قرآن وحدیث کا علم سکھاتی تھیں۔ آپ ﷺ نے خواتین کی تعلیم کے بارے میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے ایک یا ایک سے زیادہ بیٹیوں کو تعلیم دی اور اچھے طریقے سے ان کی پرورش کی تو وہ بہ روز حشر جہنم کی آگ سے دور رہے گا۔‘‘
ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ:
ماں کی گود میں اگرچہ بچہ بہت چھوٹا اور معصوم ہوتا ہے ۔ لیکن اس کی شخصیت اس گود کے سانچے میں ڈھلنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ہرگز خیال نہ کریں کہ بچہ کم فہم ہے اور کچھ نہیں سمجھتا، بل کہ بچہ والدین کے اشارے سمجھتا ہے۔ اپنے فہم کے مطابق باتیں کرتا اور اپنا مطلب سمجھاتا ہے اور والدین کی بات کا مطلب سمجھتا ہے۔ تو اگر والدہ تعلیم یافتہ ہوگی تو وہ نئی نسل کی تربیت اسلامی اصولوں پر کر سکے گی، اپنے بچوں کو نیک و بد سمجھائے گی اور ساتھ میں ایک اچھا اور مکمل انسان بنانے کی کوشش کرے گی اور اگر اس کے برعکس ماں ناخواندہ ہے تو وہ کیسے نئی نسل کی تربیت کر سکتی ہے ؟
ایک مشہور قول ہے: ’’ایک شخص کو تعلیم دینا صرف اسی کو تعلیم دیتا ہے جب کہ ایک عورت کو تعلیم دینے کا مطلب پورے خاندان کو تعلیم دینا ہے۔‘‘ اسی طرح نپولین نے بھی کہا تھا: آپ مجھے اچھی مائیں دے دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔
اسلام سے قبل عرب کے لوگوں میں جہالت اور بہت سی برائیاں تھیں۔ وہاں ایک برائی یہ بھی تھیں کہ لوگ اپنی بیٹیوں کو زمین میں زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ جب اﷲ تعالی نے خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کو مبعوث فرمایا تو جہالت دم توڑ گئی۔ انسانیت کے مایوس چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ آپ ﷺ نے بچیوں کو ان کا حق دلایا، انہیں پڑھانے لکھانے اور ان کی اچھی پرورش پر زور دیا۔ والدہ کا پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ سب کہتے ہیں کہ بچہ گھر کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے اس کے لیے والد اور خاص کر والدہ کا تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے۔ ایک کام یاب معاشرے کے لیے تعلیم نسواں ضروری ہے۔ علم ایک لازوال دولت ہے جو تقسیم کرنے سے بڑھتی ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو جہالت کی تاریکی کو مٹاتی ہے۔ یہ خدا شناسی سکھاتی ہے۔
اسلام کو دیگر مذاہب کے مقابلے میں ایک امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ یہ حصول علم پر ہر ممکن زور دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں حصول علم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اسلام مرد کی طرح عورت کے لیے بھی تعلیم کا حصول لازم قرار دیتا ہے۔ ارشاد نبویؐ کا مفہوم ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ نبی کریمؐ نے دعا فرمائی کہ اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔ اور علم و حکمت کو مومن کی گمشدہ متاع قرار دیا ہے۔ آپؐ نے مردوں کی تعلیم کے ساتھ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام فرمایا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ایک دن عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی مخصوص فرما رکھا تھا۔ ازواج مطہراتؓ رسول کریمؐ سے دین کو سیکھ کر دیگر مسلمان خواتین کو سکھاتی تھیں۔ یوں دین کی تعلیم عورتوں تک بھی باقاعدہ پہنچتی رہی۔
اسلام ہی وہ کام یاب راستہ ہے جس پر چل کر انسان دنیوی و اخروی زندگی کو کام یاب و کام ران بنا سکتا ہے۔ پڑھی لکھی عورت دنیاوی اور دینی تعلیمات و مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہے۔ وہ اپنی اولاد کی تربیت دینی اصولوں کی روشنی میں بہتر انداز میں کرسکتی ہے اور ملک و ملت کی تقدیر سنوار سکتی ہے۔