مسودہ پالیسی میں کئی ایسے نکات موجود ہیں جو ان تین متنازعہ زرعی قوانین سے مماثلت رکھتے ہیں، جن کی وجہ سے کسانوں نے ایک سال تک احتجاج کیا اور حکومت کو ان قوانین کو منسوخ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان نکات میں شامل ہیں:
• کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی): کسان تمام فصلوں کے لیے ایم ایس پی کی قانونی ضمانت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس مطالبے کو نظرانداز کیا ہے۔ 2 جنوری سے تا دم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے سردار جگجیت سنگھ ڈلےوال اور سرون سنگھ پنڈھیر کی قیادت میں کسان مزدور مورچہ کے بینر تلے کسان 13 فروری 2024 سے شمبھو اور کھنوری سرحدوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ حالانکہ زرعی امور پر پارلیمنٹ کی مستقل کمیٹی نے 17 دسمبر کو اپنی رپورٹ میں ایم ایس پی کی سفارش کی تھی لیکن مسودہ پالیسی میں ایم ایس پی کا ذکر تک نہیں کیا گیا ہے۔
• نجی سرمایہ کاری: نجی شعبے کی بڑھتی ہوئی شراکت سے اجارہ داری کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جس سے کسانوں کی سودے بازی کی صلاحیت کم ہو سکتی ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کے لیے قائم منڈی کا نظام بہت اہم ہے لیکن قومی ڈھانچے کے نفاذ سے یہ ختم ہو سکتا ہے۔ نجی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر مسودے میں زور دیا گیا ہے جو کہ اس وقت کے دوسرے زرعی قانون ‘فارمرز (ایمپاورمنٹ اینڈ پروٹیکشن) ایگریمنٹ آن پرائس ایشورنس اینڈ فارم سروسز ایکٹ’ سے ملتا جلتا ہے۔
• معاہدہ کھیتی: یہ ‘فارمرز (ایمپاورمنٹ اینڈ پروٹیکشن) ایگریمنٹ آن پرائس ایشورنس اینڈ فارم سروسز ایکٹ’ معاہدہ کا حصہ تھا جو معاہدہ کھیتی (کنٹریکٹ فارمنگ) اور نجی کاری کو فروغ دینے والا تھا۔ مسودہ پالیسی میں اس کا دوبارہ ذکر کیا گیا ہے۔