آج ہم سب سے الگ تھلگ اور مایوسی سے لپٹے زندگی کے اس مرحلے کی بات کریں گے، جب ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اندھیرے کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہماری زندگی کی شام ہونے والی ہے اور پھر ہم کسی ڈوبتے ہوئے سورج کے ساتھ ڈوبنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔
ہاں جب ہم ستر کی دہائی میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں تو زندگی سے خود بخود کنارہ کشی کی کوشش کرنے لگتے ہیں، حالاں کہ ہم تندرست ہوتے ہیں، اور ہمارے توانا ہونے کے ساتھ ساتھ دل و دماغ بھی خوب جان میں ہوتے ہیں، لیکن یہ خیال کہ ہم بوڑھے ہو رہے ہیں اور اب کسی بھی وقت موت کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں، خاصا جان لیوا لگتا ہے۔ ماضی کی ساری تلخیاں ابھر کر سامنے آنے لگتی ہیں اور اپنی غلطیوں کا زیادہ شدت سے احساس ہونے لگتا ہے۔ ہمارے رویے تلخ ہونے لگتے ہیں اور ہم زندگی کے ان لمحات کو بچی کچھی زندگی سمجھ کر گزارنے لگتے ہیں۔
لہٰذا اگر آپ اپنی عمر کی سترویںکی دہائی اور اس سے آگے کی خوشیوں کو گلے لگانا چاہتے ہیں، تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اس طرز عمل کو الوداع کہیے۔ ہر وقت ماضی کی یادوں میں ہی گِھرے رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ چاہے وہ ماضی کی رونقیں ہوں یا ماضی کی ناکامیاں۔ یہ بھی عمر کی بقیہ خوشیوں کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے ماضی کو بھول جائیں، بلکہ اپنے ماضی کو یاد رکھنا اور اس سے سیکھنا ٹھیک ہے۔ بوڑھا ہونے اور خود کو بوڑھا سمجھنے میں بہت فرق ہے۔ جب آپ خود کو بوڑھا سمجھنے لگتے ہیں، تو آپ خود کو تنہائی کے ایک ایسے گوشے میں لے جاتے ہیں، جہاں خاموشی اور اکیلا پن آپ پر حاوی ہو جاتا ہے اور آپ اسی کے خول میں مقید ہو کر رہ جاتے ہیں۔
یاد رکھیں، کھلے دل اور دماغ کے ساتھ حال اور مستقبل پر توجہ مرکوز کرنا ہی اس عمر پہلا تقاضا ہے۔ اسی میں آپ کی زندگی کے اگلے سنہری سالوں کی خوشیاں چھپی ہوتی ہیں۔ ’جسمانی صحت ایک دولت ہے!‘ ہم سب نے یہ کہاوت سنی ہے۔ ستر کی دہائی میں پہنچنے والے افراد ماضی کی دنیا میں خود کو قید کرنے کے بعد اگلا کام اپنی صحت کو بری طرح نظر انداز کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کھانے، پینے سے احتراز کرنے لگتے ہیں۔ زندگی کی چالیسویں دہائی میں متوازن خوراک استعمال کرنے والے اب کھانا پینا ہی بھولنے لگتے ہیں۔ ورزش اور باقاعدگی سے سیر کرنے والے اب اپنے کمروں کی تاریکیوں سے دوستی کرنے لگتے ہیں۔
جسمانی صحت کا خیال نہیں رکھیں گے، تو آپ کی ذہنی صحت بھی آپ کا ساتھ نہیں دے گی۔ بینائی اور چکھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جائیں گے اس لیے آپ نے آج سے ہی خود کو اندھیرے اور تاریک کمروں سے باہر نکالنا ہے۔ اپنے معمولات دوبارہ سے ٹھیک کریں اور صبح سیر کے لیے جائیں۔ کسی دوست سے گپ شپ لگائیں اور اچھی سے چائے کے ساتھ اپنی صبح کا آغاز کریں۔ اگر آپ کی صحت پہلے کی طرح ٹھیک نہیں ہے تو اپنا طبی معائنہ کرائیں اور دوسروں کی باتوں کو نظر انداز کر کے اپنی صحت کا بھرپور خیال رکھیں، کیوں کہ ’جان ہے تو جہان ہے۔‘
جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، ہمارے آرام دہ معمولات میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ہم کوئی نئی چیز سوچنا نہیں چاہتے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ نئی چیزیں آزمانا دراصل ہمارے دماغ کے لیے فائدہ مند ہے؟ نئی تجربات کرنا ان سے سیکھنا ہی دراصل ہمارے ذہن کی آب یاری ہے۔ آپ آزما کر دیکھ لیجیے، جب آپ کچھ نیا سوچتے اور اس پر عمل کرتے رہیں گے، آپ کا وقت کتنا اچھا گزرے گا اور آپ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کریں گے۔
ماہرین کے مطابق نئی سرگرمیوں میں مشغول ہونا ہمارے دماغ کو متحرک کرتا ہے، ہمیں فعال اور تیز رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
لہٰذا اگر آپ اپنے دماغ کو متحرک رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی عمر کے اس حصے میں اور اس سے آگے کی خوشیوں کو دیکھنا چاہتے ہیں، تو تجسس کو گلے لگائیں، نئی چیزیں آزمائیں، اور اپنے آس پاس کی دنیا کے لیے خود کو منفرد بنائیں۔ اس سے نہ صرف آپ کی زندگی بہتر ہوگی، بلکہ آپ کا دماغ بھی صحت مند اور متحرک رہے گا۔
رنجشیں، ناراضگی، اور ماضی کی تکلیفیں ہماری جسمانی صحت کو ہی متاثر کر سکتی ہیں۔ رنجشوں کو تھامے رکھنا ہماری خوشیوں سے جینے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ آپ ان رنجشوں کو چھوڑ دیں۔ معاف کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسروں کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کو بھول جانا بلکہ اپنے آپ کو ناراضگی کے بوجھ سے آزاد کرنا ہے۔ یہ زندگی بہت مختصر اور قیمتی شے ہے، اسے پرانی رنجشیں پالتے ہوئے مت گزاریں۔ معافی کا انتخاب کریں، امن کا انتخاب کریں، خوشی کا انتخاب کریں۔
زندگی میں مصروف رہنے کا ایک طریقہ اپنے جذبات اور دل چسپیوں کو مثبت طرف صرف کریں۔ وہ سرگرمیاں جو ہمیں پسند ہیں، وہ محض مشغلے نہیں ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمیں اندر سے روشن کرتی ہیں، جو ہمیں مقصد اور خوشی کا احساس دیتی ہیں۔ وہ ہمیں زندہ محسوس کرتے ہیں۔جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی جاتی ہے، ان جذبات میں مشغول ہونا اور بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ وہ تکمیل کا احساس فراہم کرتے ہیں اور ہماری مجموعی خوشی میں نمایاں طور پر حصہ ڈال سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ اپنی آگے کی خو ش گوار زندگی کا ارادہ رکھتے ہیں، تو اپنے جذبات کو نظر انداز نہ کریں۔ کسی پینٹ برش کو دوبارہ سے اٹھائیں، کوئی نئی زبان سیکھیے، اور پھر کسی پرانے گٹار کو ڈھونڈنے میں دیر نہیں لگتی۔
کسی کی بھی منفی باتوں پر زیادہ دھیان نہ دیں، بلکہ اپنے دل کی مانیں اور وہ کریں، جو آپ کو پسند ہے۔ زیادہ سوچنا اور پریشان ہونا اس عمر میں معمول کی بات ہوتی ہے۔ تاہم، زیادہ سوچنا اور فکر کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس سے موجودہ صورت حال تو تبدیل نہیں ہوگی اور نہ ہی حل تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے بدلے میں یہ صرف ہمارے ذہنی سکون اور ممکنہ خوشی کو ضرور چھین سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ زیادہ سوچنے اور فکر کرنے کو الوداع کہنے پر غور کیجیے۔ اپنے حال کو گلے لگائیں اور یاد رکھیں، زیادہ تر چیزیں جن کے بارے میں ہم فکر مند ہیں وہ کبھی ہوتی ہی نہیں، بس ہمارا وہم اور ناحق فکر کا نتیجہ ہوتا ہے۔