[ad_1]
یہ وقت خطرناک ہے، ہم آنکھیں موندے نہیں رہ سکتے، انتظار تو قطعی نہیں کر سکتے کہ اس سے بھی بدتر فرقہ وارانہ خوفناک خواب کیا ہونے والا ہے۔
’’رام مندر تعمیر کے بعد ’کچھ لوگوں‘ کو لگتا ہے کہ وہ نئی جگہوں پر اسی طرح کے ایشوز اٹھا کر ہندوؤں کے لیڈر بن سکتے ہیں۔ یہ قابل قبول نہیں ہے… ہر دن ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو رہا ہے۔ اس کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ اسے بند ہونا چاہیے، یہ جاری نہیں رہ سکتا۔‘‘ 19 دسمبر کو پونے میں ایک تقریب کے دوران یہ الفاظ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کے تھے۔
ہندو سَنتوں کے ادارہ ’اکھل بھارتیہ سَنت کمیٹی‘ ان کے اس بیان سے خوش نہیں نظر آیا اور اس نے بھاگوت کو ایسے معاملے ہندو سَنتوں کے لیے چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔ اتراکھنڈ میں جیوترمٹھ پیٹھ کے شنکراچاریہ سوامی اویمکتیشورانند سرسوتی نے تنقید کرتے ہوئے بھاگوت پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے بس وہی کہا جو انھیں اس وقت سیاسی طور پر سہولت آمیز لگا۔ ’ہندوستانی نظام علم کو فروغ دینے اور ہندو ثقافت و فلسفہ کی گہری سمجھ ہونے‘ کا دعویٰ کرنے والے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم ’جئے پور ڈائیلاگس‘ نے لکھا: ’’آر ایس ایس چیف ہندوؤں کے ترجمان نہیں ہیں اور ہم اپنی زمین کا ایک ایک انچ پھر سے حاصل کر کے رہیں گے۔‘‘ آر ایس ایس کے ہفتہ واری ترجمان رسالہ ’پانچ جنیہ‘ اور ’آرگنائزر‘ نے بھی جب بھاگوت کے تبصروں کی تنقید کی تو صاف ہو گیا کہ آر ایس ایس کنبہ میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
12 اکتوبر کو اپنے سالانہ دسہرا خطاب میں آر ایس ایس چیف نے لوگوں سے کہا تھا کہ ’’تشدد کا سہارا نہ لیں، سماج کے ایک خاص طبقہ پر حملہ نہ کریں یا کسی دوسرے کے عقیدہ، عبادت گاہ، پاکیزہ کتاب یا ان کے نظریات یا الفاظ میں ان کے معبود کے تئیں خوف یا ہتک عزتی پیدا نہ کریں۔‘‘ ان کی ان باتوں پر کٹر قیادت والے آر ایس ایس کنبہ میں اس وقت کوئی خاص رد عمل نہیں ہوا تھا، لیکن اس بار ماحول بدلا ہوا ہے۔
اسی دن جب بھاگوت نے بھائی چارہ میں اپنا بھروسہ ظاہر کیا، ’پانچ جنیہ‘ کے مدیر ہتیش شنکر بغیر کسی لاگ لپیٹ ان کو نظر انداز کرتے دکھائی دیے۔ اپنے دستخط شدہ اداریہ میں وہ نہ صرف قدیم مندروں کی ’تلاش‘ کے لیے جگہ جگہ چل رہی کھدائی کے دفاع میں اترے بلکہ ہندو وقار کی حفاظت کی کوشش کی شکل میں اس روش کی تعریف بھی کی۔
کچھ ہی دنوں کے بعد ایک دیگر میٹنگ میں بھاگوت نے کہا کہ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ وہ ’مندر-مسجد‘ کے ایشوز کو پھر سے بھڑکا کر ہندوؤں کے لیڈر بن سکتے ہیں، اور ہر بار یکساں سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا یہ بیان وزیر اعظم نریندر مودی کی تنقید کے طور پر دیکھا گیا، جنھوں نے نہ صرف رام جنم بھومی مندر کی بنیاد رکھی اور اس کا افتتاح کیا بلکہ اپنی عظیم حصولیابیوں میں سے ایک کی شکل میں مشتہر کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔
بھاگوت کا یہ بیان آنے کے چند منٹوں میں ہی ہندوتوا ٹرولس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ان کی تنقید کی جھڑی لگا دی، اور فطری طور سے انھیں بڑے ٹی وی چینلوں اور دیگر مین اسٹریم میڈیا ٹھکانوں پر ان کے من مطابق نشریہ کا وقت بھی ملا۔ نابینا سَنت سوامی رام بھدراچاریہ، جن کی دلیلوں نے مبینہ طور پر ایودھیا تنازعہ معاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مندر کی حمایت میں جھکا دیا تھا، کا تبصرہ تھا ’’ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی طرح کی تسکین پہنچانے والی سیاست سے متاثر ہیں۔‘‘
جیوترمٹھ شنکراچاریہ سوامی اویمکتیشورانند کا تبصرہ تھا ’’جب انھیں اقتدار چاہیے تھا تو وہ مندروں کی بات کرتے گھومتے تھے۔ اب، جب ان کے پاس اقتدار ہے تو وہ دوسروں کو مندروں کی تلاش نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔‘‘ بھولنا نہیں چاہیے کہ ماضی میں حملہ آوروں کے ذریعہ تباہ کیے گئے مندروں کی فہرست تیار کرنے اور ’ہندوؤں کے وقار کو بحال کرنے‘ کے لیے ان ڈھانچوں کا اے ایس آئی سروے کرائے جانے کا مشورہ بھی سوامی اویمکتیشورانند کا ہی تھا۔
گزشتہ 2 سالوں کے دوران موجودہ مساجد کے نیچے سے مندروں کا ’پتہ لگانے‘ کے لیے کھدائی کا مطالبہ کرنے والی کم از کم 6 عرضیاں علی گڑھ، غازی آباد، وارانسی، متھرا اور سنبھل کی ضلع عدالتوں میں داخل کی گئی ہیں۔ حالانکہ 12 دسمبر کو سپریم کورٹ نے جوں کا توں صورت حال بنائے رکھنے کا حکم دیتے ہوئے ماتحت عدالتوں کو آگے کسی بھی کھدائی سے متعلق حکم کے لیے اجازت دینے سے پرہیز کرنے کی ہدایت دی۔ اس کے بعد وارانسی کی گیانواپی مسجد، سنبھل کی شاہی جامع مسجد، بدایوں کی شمسی جامع مسجد اور جونپور کی اٹالہ مسجد میں کھدائی رک گئی۔
ویسے سپریم کورٹ کے حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے اتر پردیش کے مختلف حصوں میں مندروں، باوڑیوں، شیولنگوں اور دیگر ہندو مذہبی ڈھانچوں کی کھدائی بے خوف جاری ہے۔ حالانکہ اس حقیقت کے بالکل برعکس ریاستی بی جے پی کے ایک بڑے لیڈر نے اعلان کیا کہ ’’اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کر رہی ہے۔ عدالت کی اجازت کے بغیر اس نے کوئی بھی ذاتی یا مذہبی ڈھانچہ کو منہدم نہیں کیا ہے۔ لیکن اگر لوگ گاؤں یا کسی کالونی کے پاس کے علاقوں میں خود ہی کھدائی کرنا شروع کر دیں تو ہم اس میں کچھ نہیں کر سکتے۔ آخر کار ہم ایک جمہوریت ہیں اور ہمیں لوگوں کی خواہش کا احترام کرنا ہوگا۔‘‘
بھگوا بریگیڈ سالوں سے ہندوتوا سیاست کے شیر کی سواری کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ نرم رو لوگ بھی شیر کا شکار ہونے کے خوف سے نیچے نہیں اترنا چاہتے۔ آر ایس ایس کنبہ کے کٹر رائٹ وِنگ تو ہمیشہ سے ہی اپنے نرم رو لوگوں کو ہدف بناتے رہے ہیں، لیکن اس بار وہ اپنے ہی ’پتامہہ‘، اپنے سب سے سینئر لیڈر کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔
ہندو کٹر پسندوں کے سوشل میڈیا پیغامات میں طنز (’’موہن بھاگوت ’جی‘ کو اب مندر ڈھونڈنے میں بھی پریشانی ہو رہی ہے۔ ہندو ہردے سمراٹ یوگی آدتیہ ناتھ ’جی‘ ان سے لاکھ گنا بہتر ہیں جو سنبھل سے کاشی تک ہر دن کھدائی مہم چھیڑے ہوئے ہیں‘‘) سے لے کر تنقید (’’موہن بھاگوت سنبھل میں ہوئے تشدد اور ہندوؤں پر جاری مظالم کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہے ہیں‘‘) خوب دکھائی دے رہی ہے۔
آسام کے وزیر اعلیٰ اور خود کو ہمیشہ ’سچ‘ کا علم بردار ماننے والے ہیمنت بسوا سرما کے ایک خود ساختہ حامی مرتیونجے کمار نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ’’میں سبھی آر ایس ایس اراکین سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ موہن بھاگوت کو فوراً ان کے عہدہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کریں۔ بھاگوت اب دوسرے واجپئی بن گئے ہیں، اس لیے انھیں جلد از جلد عہدہ چھوڑنا ہوگا۔‘‘
بھاگوت کے خلاف آوازیں جس طرح دن بہ دن تیز ہوتی جا رہی ہیں، وہ حیرت انگیز ہے۔ آر ایس ایس ’سر سنگھ چالک‘ ملک بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ اراکین والی صدیوں پرانی تنظیم کا سب سے باوقار عہدہ ہے۔ ’ہندو غیر منقسم کنبہ‘ کے شرکا کا اس سے قبل کسی بھی آر ایس ایس چیف کی اتنی بری طرح اور عوامی طور پر مذمت نہیں ہوئی۔ لیکن کیا بھاگوت مخالف یہ مہم از خود پروان چڑھی ہے، یا اس کی جڑیں آر ایس ایس کنبہ کے کسی اندرونی خیمہ کی آبیاری کا نتیجہ ہے، جو بھاگوت کو باہر کا راستہ دکھانا چاہتے ہیں؟
سوال تو کئی اٹھ رہے ہیں… آر ایس ایس ترجمان رسالہ کا مدیر بھاگوت پر اتنا سیدھا حملہ کیسے کر سکتا ہے؟ کیا موہن بھاگوت نے آر ایس ایس کے اہم اراکین کا بھروسہ اور احترام گنوا دیا ہے؟ جب کٹر ہندوتوا کنبہ کو بھرپور فائدہ پہنچاتا نظر آ رہا ہے تب بھاگوت صبر سے کام لینے کی کوشش کیوں کریں گے؟ آر ایس ایس کیڈر بھاگوت کے خلاف کیوں ہو گیا؟ کیا بھاگوت اس حملے سے بچ پائیں گے؟ ان کے پاس متبادل کیا ہیں؟ کیا بھاگوت مخالف مہم کے پیچھے بی جے پی ہے؟ کیا بھاگوت پر اپنا جانشیں مقرر کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے؟
کچھ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ سب محض ایک دکھاوا ہے۔ آر ایس ایس تو وقت وقت پر ’تقریباً مناسب بیان‘ دینے کے لیے جانا جاتا ہے۔ کچھ لوگ بیان کے ’وقت‘ سے متعلق بہت کچھ بول رہے ہیں، یہ یاد دلاتے ہوئے کہ مودی حال ہی میں پہلی بار کویت میں تھے، ایک عرب ملک کے ساتھ رشتے بنا رہے تھے، اور ایسے میں موہن بھاگوت کی رواداری پر مبنی آواز سفارتی ڈھانچہ میں سیاسی طور سے فِٹ بیٹھتا ہے۔ اگر یہ کھنچاؤ جیسا لگتا ہے تو ممکن ہے ایسا ہو۔ اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ بھاگوت پر حملہ درحقیقت کٹر پسند مفادات کو ہی متحد کرے گا، کہ وہ عدلیہ پر اپنے طرح سے دباؤ بنا سکیں اور آر ایس ایس-بی جے پی اپنے ہاتھ صاف دکھاتے ہوئے اُدھر سے آنکھیں موند سکیں۔ اب ہم یہ جاننے اور دیکھنے کے لیے انتظار تو نہیں کر سکتے کہ نئے سال میں اس سے بھی بدتر فرقہ وارانہ خوفناک خواب کیا ہونے والا ہے!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link