اس وقت میڈیا میں اگر کوئی موضوع زیر گفتگو ہے تو وہ پارلیمنٹ کے مکر گیٹ پر ہونے والا دھکا مکی کا واقعہ ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے معزز ارکان نے پارلیمنٹ کے وقار کا کوئی خیال نہیں رکھا اور اپنے کردار سے اس کے وقار کو ملیامیٹ کر دیا۔ وہاں جو کچھ ہوا وہ تو شرمناک ہے ہی لیکن اس کے بعد حکمراں جماعت کی طرف سے جو بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ بھی کم شرمناک نہیں ہیں۔ بی جے پی کے رہنما اور ترجمان گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ بتا رہے ہیں کہ قائد حزب اختلاف اور کانگریس پارٹی کے سینئر رکن راہل گاندھی نے دھکا مار کر دو معزز ارکان کو زخمی کر دیا۔ وہ دونوں تادم تحریر رام منوہر لوہیا اسپتال میں داخل ہیں اور بی جے پی کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔
اس درمیان جو واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ بڑے مضحکہ خیز ہیں اور خود حکومت اور بی جے پی کی رسوائی کا سامان بن رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ایسا کبھی سنا نہ دیکھا کہ کسی نے کسی کو دھکا مار دیا اور وہ اس دھکے سے اتنی بری طرح زخمی ہو گیا کہ اسے اسپتال کے آئی سی یو میں داخل کرانا پڑا اور اس کی حالت نازک ہو گئی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ دھکا جسمانی تھا یا کسی ہتھیار کا تھا۔ ظاہر ہے وہاں تو کوئی ہتھیار لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ بی جے پی کے ممبران نے جو تختیاں اٹھا رکھی تھیں ان میں موٹے موٹے ڈنڈے لگے ہوئے تھے۔ کیا پتہ اس ہنگامہ آرائی میں کسی بی جے پی ایم پی کا ڈنڈا دانستہ یا نادانستہ ایک ایم پی پرتاپ سارنگی کو لگ گیا ہو اور ان کی پیشانی سے خون بہہ نکلا ہو۔