پولیس افسر سریش چند نے کہا کہ ’’وہاں پر اس مکان کو جس نے خریدا ہے اس سے بات ہو رہی ہے۔ جو حصہ غیر قانونی پایا جائے گا اس پر کارروائی کی جائے گی۔‘‘
مندر کا گھنٹہ، تصویر آئی اے این ایس
اترپردیش کے سنبھل میں شاہی جامع مسجد کا معاملہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک اور مذہبی معاملہ سرخیوں میں ہے۔ ضلع انتظامیہ نے 46 سال بعد کھولے گئے مندر سے متصل ایک مکان کی تفصیلات مکان مالک سے مانگی ہے۔ مکان کے مالک متین سے مکان کی رجسٹری کے ساتھ ساتھ مکان کی چہاردیواری سے متعلق بھی کاغذات مانگے گئے ہیں۔ ذرائع سے ملی جانکاری کے مطابق مندر سے متصل مکان کا کوئی بھی حصہ اگر غیر قانونی پایا جائے گا تو انتظامیہ اس کو منہدم کر دے گی۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق یہ مکان پَون رستوگی اور وشنو شرن کا تھا۔ 2000 کے آس پاس اس نے یہ مکان متین کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا۔
مندر سے متصل مکان کے نقشہ کی مدد سے پیمائش بھی کی گئی ہے۔ متین کے مکان کی چھت پر چڑھ کر خود ایڈیشنل ایس پی نے پیمائش کی۔ پیمائش کے دوران بہت سارے پولیس افسران موجود تھے۔ ایک طرف جہاں پولیس مکان کی پیمائش کر رہی تھی وہیں دوسری جانب مندر میں پوجا بھی کیا جا رہا تھا۔ موقع پر موجود ایک پولیس افسر سریش چند نے کہا کہ ’’وہاں پر اس مکان کو جس نے خریدا ہے اس سے بات ہو رہی ہے۔ جو حصہ غیر قانونی پایا جائے گا اس پر کارروائی کی جائے گی۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ تشدد کی آگ میں لپٹے سنبھل میں ہفتہ کے روز لاؤڈ اسپیکر کی آواز چیک کرنے آئی پولیس نے ایک 46 سال قدیم مندر مسلم اکثریتی علاقے کھگّو سرائے میں پایا۔ یہ قدیم مندر سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمان برق کی رہائش گاہ سے صرف 200 میٹر اور شاہی جامع مسجد (جس کے سروے کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا) سے 500 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جب مندر کا دروازہ کھولا گیا تو اندر سے ’ہنومان‘ کی مورتی اور شیولنگ برآمد ہوا۔ مندر کے قریب ایک کنواں ہے جس کی کھدائی کی جا رہی ہے۔ مندر کی بازیابی کے بعد ہندو طبقہ کے اندر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔