[ad_1]
اس پاگل پن سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے، سبھی لوگ مل کر ایک لکیر کھینچ دیں اور طے کر لیں کہ فلاں تاریخ سے ہر پرانے تنازعہ پر ڈھکن لگا کر اسے بند کر دیا جائے گا، اور وہ تاریخ 15 اگست 1947 ہی ہو سکتی ہے۔
’جدھر دیکھو اُدھر کھدا ہے، جہاں نہیں ہے وہاں بھی کھُد جائے گا‘۔ دہلی میں میٹرو کی تعمیر کے وقت پورے شہر میں چل رہی کھدائی کو لے کر یہ چٹکلا سنا تھا۔ آج لگتا ہے پورا ملک س چٹکلے کا شکار ہے۔ جہاں دیکھو کھدائی چل رہی ہے، نہیں تو کھدائی کی تیاری چل رہی ہے، یا پھر کھدائی کا مطالبہ چل رہا ہے۔ گڑے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں، تاریخ میں خندق تلاش کی جا رہی ہے، جہاں تلاش سے بات نہ بنے، وہاں ایجاد کیا جا رہا ہے۔
پہلے معاملہ ایودھیا کی بابری مسجد تک محدود تھا۔ پھر بتایا گیا کہ ایودھیا تو صرف جھانکی تھی، اور کاشی کی گیانواپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کا معاملہ اٹھا۔ اب تو جیسے پرنالا ہی کھل گیا ہے… سنبھل کی جامع مسجد، دھار (مدھیہ پردیش) کی کمال مولا مسجد، چک منگلور کی بابا بدان گری درگاہ، ٹھانے کی حاجی ملنگ درگاہ اور اب اجمیر کی درگاہ شریف۔ کوئی ایک درجن جگہ زمین کے اندر سروے چل رہے ہیں۔ دل و دماغ کے اندر تو ہر جگہ چل رہے ہیں۔ کہیں کالج میں مسجد تلاش کر بند کروائی جا رہی ہے، کہیں سڑک پر اجتماعی نماز کو روکا جا رہا ہے، تو کہیں تنہا شخص کو نماز پڑھنے سے۔ حد تو یہ ہے کہ اب مراد آباد سے خبر ہے کہ ایک مسلم ڈاکٹر جوڑے کو ہاؤسنگ سوسائٹی میں قانونی طریقے سے خریدے ہوئے اپنے فلیٹ میں رہنے سے روک دیا گیا۔ ’اوپر‘ سے شروع کیا گیا فرقہ واریت پر مبنی ہنگامہ مانو اب ’نیچے‘ اتر کر رقص کر رہا ہے۔
ذرا غور کیجیے۔ جہاں ایک طرف ہمارے یہاں اقلیت مسلمانوں کو ہر طرح سے اکھاڑنے کی مہم چھڑی ہوئی ہے، وہیں ہم سب بنگلہ دیش کے اقلیت ہندو طبقہ کی حالت زار پر آنسو بہا رہے ہیں۔ یہاں اقلیتوں کی لنچنگ اور بلڈوزر پر تالیاں پیٹ رہے ہیں، وہاں ہندو اقلیتوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہونے والوں کو ہیرو بتا رہے ہیں۔ کوئی اور ملک ہندوستان کے اقلیتوں کی حالت پر بولے تو اسے خود مختاری پر حملہ بتاتے ہیں، بیرون ملکی سازش کی دُہائی دیتے ہیں، اور وہاں بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی حالت پر حکومت ہند بیان دیتی ہے، بی جے پی کے لیڈران اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ پاکھنڈ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
کیا ہمیں ایک بار رک کر سوچنا نہیں چاہیے؟ یہ راستہ ہمیں کہاں لے جائے گا؟ کہاں کہاں اور کس کس کو کھودیں گے ہم؟ سب کچھ کھودنے پر جو کچھ ملے گا، اس پورے سچ کا سامنا کیسے کریں گے ہم؟ آج ہم جو چاہے منمانی کر لیں، اس کا طویل مدتی نتیجہ کیا دیکھ بھی سکتے ہیں ہم؟
ایک بار ٹھنڈے دماغ سے سوچیے۔ گزشتہ 5000 سال سے اس ملک میں کس کس راجہ نے کس کس عبادت گاہ کو توڑا ہوگا؟ اگر اس سب کا حساب برابر کرنے پر آمادہ ہو گئے تو اس ملک میں کیا کچھ کھودنا پرے گا؟ بے شک آج ہمیں مسلم بادشاہوں کے ذریعہ ہندو مندروں کو توڑنے کی کہانی یاد رہتی ہے، چونکہ یاد دلائی جا رہی ہے۔ لیکن اس سے پہلے اور اس دوران بھی کتنے ہندو راجاؤں نے ہندو مندروں کو توڑا تھا، دوسرے راجہ کے ’کُل دیوتا‘ کی مورتی کو توڑ کر اپنے ’کُل دیوتا‘ کی پران پرتشٹھا کی تھی، ایک فرقہ کے مندر کو منہدم کر اپنے فرقہ کے مندر بنائے تھے۔ ان سب کا حساب کریں گے ہم؟
تاریخ داں بتاتے ہیں کہ شُنگ نسل کے برہمن راجہ پشیہ متر شُنگ نے مشرق سے مغرب تک بے شمار بودھ اور جین عبادت گاہوں کو منہدم کیا تھا۔ دورِ وسطیٰ میں بھی مراٹھا فوج نے شری رنگاپٹنم کے مندر کو منہدم کیا تھا۔ تقسیم کے فسادات میں اگر سرحد کے اس پار مندر اور گرودوارے توڑے گئے تھے تو اس پار نہ جانے کتنی مساجد ٹوٹی تھیں۔ تاریخ داں ڈی این جھا کے مطابق بھوتیشور اور گوکرنیشور مندر غالباً ایک زمانے میں بودھ وِہار رہے تھے۔ مورخین کی چھوڑ بھی دیں تو خود سوامی وویکانند نے درج کیا ہے کہ پُری کا جگناتھ مندر بنیادی طور پر ایک بودھ مندر تھا۔ آج بھلے ہی جین مذہب کو ماننے والے یہ دعویٰ نہ ٹھوکیں، آج بودھ لوگ ان عبادت گاہوں کو واپس مانگنے کی حالت میں نہ ہوں، لیکن مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا اس کی کیا گارنٹی ہے؟ آج بھلے ہی طاقت کا توازن ایک طرف ہے، لیکن آج سے 100 سال بعد کیا ہوگا یہ کون کہہ سکتا ہے؟ اگر تاریخی ناانصافی کا بدلہ لینے اور اپنی اپنی عبادت گاہوں کو دوبارہ حاصل کرنے کا سلسلہ چل نکلا تو کون بچ پائے گا؟ اس کھدائی کے ہنگامہ میں مندر، مسجد، گرودوارے، بودھ وِہار نکلیں یا نہ نکلیں، ہندوستان کی جڑ ضرور کھُد جائے گی۔ نہ مذہب بچے گا، نہ ملک۔
اس پاگل پن سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ سبھی ہندوستانی باشندے مل کر ایک لکیر کھینچ دیں اور طے کر لیں کہ فلاں تاریخ سے پرانے ہر تنازعہ پر ڈھکن لگا کر اسے بند کر دیا جائے گا۔ اور وہ تاریخ ایک ہی ہو سکتی ہے- 15 اگست 1947، جب ہم نے ایک آزاد ہندوستان کا سفر شروع کیا تھا۔ یہی کام ہندوستان کی پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس ’عبادت گاہ ایکٹ، 1991‘ نے کیا تھا۔ اس وقت متنازعہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ کو چھوڑ کر ملک کی باقی سبھی عبادت گاہوں کے بارے میں یہ قانون بنا تھا کہ 15 اگست 1947 کے دن جو عبادت گاہ جس مذہب، طبقہ، فرقہ کا تھا ویسا ہی رہے گا۔ اس سے پرانے تنازعہ کو کسی عدالت میں دوبارہ کھولا نہیں جا سکے گا۔ گزشتہ 33 سال سے یہ قانون چل رہا ہے۔ ایودھیا معاملے میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے مین اس قانون کی تصدیق کی، لیکن پھر نہ جانے کیوں وہ فیصلہ لکھنے والے چیف جسٹس چندرچوڑ نے ہی خود گیانواپی معاملے میں یہ سہولت دی کہ پرانے معاملے کو کھولا بھلے ہی نہ جائے، سروے ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اسی افسوسناک سہولت کے سبب ملک میں لگاتار نئے سروے اور تنازعہ کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ یہ مضمون لکھے جانے کے وقت چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی صدارت والی ڈویژن بنچ نے 12 دسمبر کو معاملے کی سماعت شروع کر دی ہے۔
اس ملک کا بھلا چاہنے والا ہر شہری یہی امید کرے گا کہ سپریم کورٹ 1991 کے قانون کی تصدیق کرتے ہوئے گڑے مردے اکھاڑنے پر روک لگائے گا۔
(بشکریہ: نوودے ٹائمز)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link