کراچی کے تاجروں نے کے الیکٹرک کے اقدامات کو تاجر وعوام دشمن قرار دیتے ہوئے شہر میں مسابقت کی فضا کے لیے مزید پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو مواقع فراہم کرنے کا مطالبہ کردیا۔
پیر کو آل پاکستان اسمال ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے تحت کراچی پریس کلب میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی پبلک ایڈ کے سربراہ عمران شاہد نے کہا کہ ظالمانہ کے ای نیپرا کی سماعت میں جعلی کلیمز کرنے جارہا ہے جس میں بجلی کے نادہندگان کے 68ارب روپے کی باقاعدگی کے ساتھ بل ادا کرنے والے صارفین سے وصولیوں کی اجازت طلب کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کے بحران سے کراچی کی 30فیصد صنعتیں بند ہوچکی ہیں، معیشت کا براہ راست تعلق توانائی کے ساتھ ہے، بجلی سستی ہوگی تو معیشت پھلے پھولے گی۔ 1952 میں کے الیکٹرک نجی کمپنی کے حکومت نے اکثریتی شیئرز خرید کر سرمایہ کاری کی۔ 2005 میں مشرف نے اس قومی اثاثے کی غیر آئینی طور پر نجکاری کردی۔ کراچی 60فیصد ریونیو اور 40 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے اور 55 فیصد برآمدات کا حصہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ عبد الحفیظ شیخ نے خوشخبری کے طور پر بتایا کہ کے ای ایس سی میں 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی اور کراچی میں اندھیرے ختم ہو جائیں گے۔ محض 15ارب روپے میں کے ای ایس سی کو پرائیویٹائز کیا گیا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اس کے خسارے میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ سابق صدر آصف زرداری نے کے-الیکٹرک میں ابراج گروپ کو متعارف کروایا جس کے کئی اسکینڈل زبان زد عام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کی نجکاری کو 19 سال کا عرصہ گزر گیا مگر جنریشن میں خود کفیل نہیں ہوسکی۔ کے الیکٹرک مہنگی بجلی بنا کر تاجروں عوام کو فروخت کرتی ہے۔ کے الیکٹرک سستی بجلی شہریوں کو فراہم نہیں کرسکی، نیپرا کی رپورٹس میں یہ بات موجود ہے۔ 2015 میں ہیٹ ویو کے دوران بجلی کا نظام دانستہ طور پر بٹھادیا گیا تھا، ڈھائی ہزار لوگ گرمی کی شدت سے مرگئے تھے اور اسپتالوں میں جگہ کم پڑ گئی تھی۔ جب کراچی کو بجلی کی ضرورت تھی تب فرنس آئل کے پلانٹ کے الیکٹرک نے بند کردیے تھے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صدر آل کراچی تاجر اتحاد عتیق میر نے کہا کہ کراچی میں سب سے زیادہ احتجاج کے الیکٹرک کی بے ضابطگیوں کے خلاف ہوئے، لیکن یہ ادارہ ایسا ہے جو مرضی کرے لیکن حکومت کی روک تھام کی طاقت نہیں ہے۔ اس طرح کے ادارے کمرشل بنیادوں پر کسی کمپنی کے حوالے نہیں کیے جاسکتے۔
انہوں نے کہا کہ 19 سال سے یہ طوق ہمارے گلے میں پڑا ہے۔ چند لوگوں کی بجلی چوری کی سزا تمام علاقے کے لوگوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ تمام شعبہ جات سے وابستہ لوگ اس عفریت کا شکار ہیں۔ کاروبار کو سب سے بڑا درپیش مسئلہ بجلی کے بل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے متعدد ممالک نے بجلی کے مسائل پر قابو پا کر ترقی کی، چین اور بھارت اس کی واضح مثال ہیں۔ دہلی جہاں بجلی کے بے بہا مسائل تھے، اب وہاں صنعتیں چل رہی ہیں۔ نیپرا اور حکومت میں بیٹھے کئی کرپٹ لوگوں نے کے-الیکٹرک لائسنس کو 2044 تک وسیع کردیا۔ لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں، خودکشیاں ہوئیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ مزید کمپنیوں کو اس کی مسابقت میں لایا جانا چاہیے۔ عوام کے پاس آپشن ہونا چاہیے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمود حامد صدر اسمال ٹریڈرز نے کہا کہ کے الیکٹرک کراچی کے عوام اور تاجروں کے ساتھ ظالمانہ رویے پر احتجاج کرتے رہیں گے۔ اس سے قبل بھی قانونی معاملات بھی کیے، ہڑتالیں بھی کیں ہر گلی کوچے میں کے-الیکٹرک کی لوٹ مار کے قصے بیان ہورہے ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ ہماری سنوائی کہیں نہیں ہورہی۔
انہوں نے کہا کہ عدالتیں کے-الیکٹرک کے کیسز پر خاموش ہیں۔ سلیب سسٹم سمجھ سے بالاتر ہے، تاجر اپنی موٹر سائیکل فروخت کرکے بل ادا کررہے ہیں۔ لوگ کے الیکٹرک کے ظالمانہ بلوں پر خودکشیاں کررہے ہیں۔ کے-الیکٹرک نے نیپرا سے نادہندگان کے 68 ارب روپے بروقت بل ادا کرنے والوں سے وصول کرنے کی اجازت مانگ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کے-الیکٹرک کو شرم آنی چاہیے کہ کے الیکٹرک اور اس کے اسٹاف کی ملی بھگت سے بجلی کی منظم چوری ہوتی ہے۔ کے الیکٹرک کی وجہ سے بڑی صنعت سے لے کر کاٹیج انڈسٹری تک بند ہورہی ہے۔ کے الیکٹرک کے ساتھ اب اس ملک میں کاروبار نہیں ہوسکتا۔ سیمینار سے اسلم خان شاہد عبداللہ ودیگر نے بھی خطاب کیا۔