[ad_1]
کہا جاتا ہے کہ گاجر آنکھوں کی بنیائی کو درست رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں مگر کیا یہ واقعی درست ہے؟
گاجر ایسی سبزی ہے جس کو مختلف شکلوں میں کھایا جاتا ہے اور ہزاروں برسوں سے اس کی کاشت ہورہی ہے۔
دنیا کے مختلف حصوں میں یہ مختلف رنگوں میں دستیاب ہوتی ہے مگر نارنجی رنگ کی گاجر ہی سب سے زیادہ عام ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اسے 16 ویں صدی میں ڈچ کاشتکاروں نے اگانا شروع کیا تھا۔
ویسے اس موسم میں عام دستیاب اس سبزی کو کھانا عادت بنانا کس حد تک فائدہ مند ہے؟ یہ آپ درج ذیل میں جان سکتے ہیں۔
مگر یہ جان لیں کہ گاجر وٹامنز، منرلز اور فائبر سے بھرپور ہوتی ہیں اور اینٹی آکسائیڈنٹس کے حصول کا اچھا ذریعہ بھی ہیں۔
بینائی
کہا جاتا ہے کہ گاجریں آپ کو اندھیرے میں دیکھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں تو کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟ کسی حد تک ہاں۔
گاجروں میں وٹامن سی ہوتا ہے اور جسم میں وٹامن اے کی کمی رات کے اندھے پن یا کم رشنی میں دیکھنے میں مشکلات کا باعث بننے والی بیماری کا خطرہ بڑھاتی ہے۔
تو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ گاجر واقعی اندھیرے میں دیکھنے میں مددگار ہے مگر بیشتر افراد کی بینائی میں اسے کھانے سے بہتری آنے کا امکان نہیں ہوتا، ماسوائے اس صورت میں جب ان میں وٹامن اے کی کمی ہو۔
اس سبزی میں لیوٹین اور zeaxanthin جیسے اینٹی آکسائیڈنٹس بھی ہیں اور ان دونوں کا امتزاج عمر بڑھنے کے ساتھ بینائی میں آنے والی تنزلی کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
کینسر
جسم میں فری ریڈیکلز کی زیادہ تعداد سے مختلف اقسام کے کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
گاجروں میں موجود غذائی کیروٹینز جیسے اینٹی آکسائیڈنٹ سے یہ خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔
ایک گاجر میں 509 مائیکرو گرام وٹامن اے، 5050 مائیکرو گرام بیٹا کیروٹین اور 2120 مائیکرو گرام ایلفا کیروٹین ہوتی ہے، یہ دونوں پرو وٹامن اے اینٹی آکسائیڈنٹس ہیں جو جسم میں جاکر وٹامن اے میں بدل جاتے ہیں۔
ایک تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ کیروٹین سے بھرپور غذا مثانے کے کینسر کا خطرہ کم کرتی ہے جبکہ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ گاجر کا جوس پینا پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ کم کرسکتا ہے۔
نظام ہاضمہ
ایک درمیانی گاجر میں 1.7 گرام فائبر ہوتا ہے جو روزانہ کے لیے درکار مقدار کا 5 سے 7 فیصد حصہ ہوتا ہے (اس کا انحصار عمر اور جنس پر ہوتا ہے)۔
زیادہ فائبر والی غذائیں معدے کی صحت کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں اور قبض کی روک تھام بھی کرتی ہیں۔
ذیابیطس
ایک گاجر کا 10 فیصد حصہ کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہوتا ہے اور 30 فیصد کاربوئیڈریٹس مواد فائبر پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ایک گاجر میں 25 کیلوریز ہوتی ہیں۔
مجموعی طور پر گاجر ایک کم کیلوریز اور زیادہ فائبر والی غذا ہے جس میں قدرتی مٹھاس کم ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اچھا سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسے کھانے سے بلڈ شوگر لیول بڑھناکے امکان کم ہوتا ہے۔
ابلی ہوئی گاجر سے بلڈ شوگر بڑھنے کا امکان نہیں ہوتا اور ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید ہوتی ہے۔
2018 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ زیادہ فائبر والی غذا سے ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہونے سے مدد مل سکتی ہے جبکہ ذیابیطس کے مریض اپنے بلڈ شوگر لیول کو مستحکم رکھ سکتے ہیں۔
بلڈ پریشر اور دل کی شریانوں کی صحت
گاجر میں موجود فائبر اور پوٹاشیم بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے لوگوں میں کم نمک کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جبکہ پوٹاشیم والی غذا جیسے گاجر کے زیادہ استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
پوٹاشیم خون کی شریانوں کو پرسکون رکھنے میں مدد فراہم کرنے والا جز ہے جس سے ہائی بلڈ پریشر اور دل کی شریانوں سے جڑے دیگر مسائل کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
ایک گاجر سے لوگوں کو پوٹاشیم کی روزانہ درکار مقدار کا 4 فیصد حصہ ملتا ہے۔
2017 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ زیادہ فائبر والی غذا کا استعمال کرنے سے لوگوں میں دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے جبکہ زیادہ فائبر سے نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح بھی کم ہوتی ہے۔
مدافعتی افعال
گاجر میں ایک اور اینٹی آکسائیڈنٹ وٹامن سی ہے۔
وٹامن سی کولیگن بننے کے عمل میں کردار ادا کرتا ہے، کولیگن ٹشوز کے جوڑ اور زخموں کے بھرنے کے لیے اہم جز ہے جبکہ جسم کو صحت مند رکھتا ہے۔
یہ وٹامن مدافعتی خلیات میں بھی پایا جاتا ہے جو جسم کو امراض سے لڑنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
صحت مند مدافعتی نظام مختلف امراض سے بچاتا ہے۔
جب کوئی فرد بیمار ہوتا ہے تو مدافعتی نظام کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں وٹامن سی کی سطح میں کمی آتی ہے۔
کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ اضافی وٹامن سی سے دباؤ کے شکار مدافعتی افعال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر اس سے نزلہ زکام کی شدت اور دورانیے میں معمولی کمی لائی جاسکتی ہے۔
ہڈیوں کی صحت
گاجروں میں وٹامن کے اور کچھ مقدار میں کیلشیئم بھی ہوتا ہے، یہ دونوں ہی ہڈیوں کی صحت میں کردار ادا کرتے ہیں اور بھربھرے پن سے بچاتے ہیں۔
کچی یا پکی ہوئی کونسی شکل بہتر؟
گاجر کو کچا بھی کھایا جاتا ہے، ابال کر، بھون کر یا سالن یا کھانے میں ڈال کر بھی۔
ابلی ہوئی سبزیوں میں سے وٹامنز کی کچھ مقدار کم ہوجاتی ہے، تو کچی شکل میں گاجر غذائی اجزا کے حصول کا زیادہ اچھا ذریعہ ہے۔
اسی طرح اگر گاجروں کو گریاں یا بیجوں کے ساتھ کھایا جائے تو اس میں موجود کیروٹینز اور وٹامن اے زیادہ بہتر طریقے سے جذب ہوتے ہیں۔
[ad_2]
Source link