[ad_1]
تیس جون کو الجزیرہ نے ایک دہلا دینے والی نیوز ریل نشر کی۔اس میں دکھایا گیا کہ کس طرح غزہ میں اسرائیلی فوجی بے بس فلسطینیوں کو فوجی وردی پہنا کے ، ہاتھ رسی سے باندھ کے ان کے ماتھے یا سینے پر کیمرے باندھ کے عمارات کے اندر یا زیرِ زمین سرنگوں میں اترنے پر مجبور کر رہے ہیں تاکہ اگر وہاں دھماکا خیز مواد یا بارودی سرنگ بچھائی گئی ہو یا پھر کوئی حریت پسند چھپا بیٹھا ہو تو وہ انھیں اسرائیلی فوجی سمجھ کے گولی چلائے اور پھر اصل اسرائیلی فوجی اس سرنگ یا عمارت میں داخل ہو کر تلاشی لے سکیں۔
غزہ کے سب سے بڑے اسپتال الشفا کے محاصرے کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے بندوق کی نوک پر وہاں موجود نہتے فلسطینی پناہ گزینوں اور مریضوں کو مشتبہ کمروں کی تلاشی کے دوران بطور انسانی ڈھال استعمال کیا۔مغربی کنارے کے شہر جنین میں بھی ایک عمارت میں چھپے حریت پسندوں کو باہر آنے پر مجبور کرنے کے لیے فوجیوں نے پانچ کمسن بچوں کو بطور انسانی ڈھال اپنے آگے رکھا۔
یورو میڈکس نامی طبی تنظیم کے مطابق ستائیس جون کو اسرائیلی فوجیوں نے ایک مشتبہ حماسی ہمدرد کو ڈھونڈنے کے دوران غزہ شہر کے نواحی علاقے الشجاعیہ کے ایک گھر میں گھس کے بے تحاشا فائرنگ کی اور ایک پینسٹھ سالہ معمر خاتون صفیہ الجمال ، ان کے ایک نوعمر بیٹے ، تین بیٹیوں اور ڈیڑھ سال کی نواسی کو یرغمال بنا لیا۔ان سب کو باہر موجود اسرائیلی ٹینکوں کے آگے تین گھنٹے تک کھڑے رکھا تاکہ ان ٹینکوں پر کسی جانب سے مسلح حملہ نہ ہو۔بعد ازاں ایک اسرائیلی ٹینک نے اپنے سامنے جبراً کھڑی کی گئی معمر خاتون کو ان کے خاندان کی آنکھوں کے سامنے کچل ڈالا۔
بائیس جون کو عالمی ذرایع ابلاغ میں یہ تصویر شایع ہوئی کہ کس طرح ایک زخمی بوڑھے فلسطینی کو جیپ کے بونٹ پر رسیوں سے باندھ کے بطور انسانی ڈھال اس فوجی جیپ کو مختلف محلوں میں گھمایا گیا۔
اسرائیل فلسطینیوں کو انیس سو اسی کے عشرے سے ایسی حرکتیں کر رہا ہے۔انیس سو انچاس کے جنیوا کنونشن کی رو سے عام شہریوں کو یرغمال بنا کے انھیں بطور انسانی ڈھال استعمال کرنا جنگی جرم ہے۔
اسرائیل کی دیکھا دیکھی مقبوضہ کشمیر میں بھی قابض بھارتی فوج عام شہریوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کرتی آئی ہے۔اس نوعیت کا سب سے مشہور واقعہ اپریل دو ہزار سترہ میں سو پور کے علاقے میں ایک ضمنی انتخاب کے دوران پیش آیا۔جب ایک بھارتی فوجی قافلے کو مشتعل کشمیری نوجوانوں کے پتھراؤ سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک راہ گیر فاروق احمد ڈار کو ایک فوجی جیپ کے اگلے بمپر سے باندھ کے پانچ گھنٹے مختلف علاقوں میں گھمایا گیا۔بھارتی فوج کے سربراہ جنرل وپن راوت نے فاروق ڈار کو بطور انسانی ڈھال جیپ سے باندھ کر گھمانے والے میجر لیٹول گوگوئی کو اس ’’ کارنامے ‘‘ پر خصوصی تعریفی سند سے نوازا۔
سات اکتوبر کے بعد سے غزہ میں جن ہزاروں فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا ان میں تین سو سے زائد ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس بھی شامل ہیں۔ ان قیدیوں کو مختلف جیلوں ، فوجی بیرکوں اور کنسنٹریشن کیمپوں میں رکھا گیا۔اب تک پچاس سے زائد قیدی ان عقوبت خانوں میں دورانِ تفتیش ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال کے آرتھوپیڈک شعبے کے انچارج ڈاکٹر عدنان البرش بھی شامل ہیں۔جنھیں چار ماہ تک مسلسل ٹارچر کر کے مار ڈالا گیا۔
ہٹلر نے نازی بیگار کیمپوں میں جو لاکھوں یہودی قیدی رکھے۔ان پر ٹارچر کرنے والوں میں جرمن ڈاکٹرز بھی شامل تھے۔وہ ان قیدیوں پر طرح طرح کے جسمانی ، جینیاتی اور نفسیاتی تجربے کرتے تھے۔ ایک ڈاکٹر کو قیدیوں کی کھال کے لیمپ شیڈز بنانے کا شوق بھی تھا۔ان یہودیوں کی وارث ریاست اسرائیل کے ڈاکٹروں نے اپنے بزرگوں سے ہونے والے بہیمانہ سلوک سے عبرت پکڑنے کے بجائے نازیوں کے نقشِ قدم پر چلنا سیکھ لیا۔حالانکہ ان ڈاکٹروں نے بھی انیس سو اڑتالیس میں عالمی میڈیکل ایسویسی ایشن کا مرتب کردہ وہ حلف اٹھایا ہے کہ ’’ میں خود پردباؤ اور جبر کے ماحول میں بھی بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کی پامالی کے لیے اپنے طبی علم اور تجربے کو استعمال نہیں ہونے دوں گا ‘‘۔
قیدیوں پر اذیت رسانی کے خلاف کام کرنے والی ایک اسرائیلی تنظیم ’’ پیکاتی ‘‘ کی دو ہزار سات کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق جیلوں اور قیدی کیمپوں میں متعین متعدد ڈاکٹر اذیت رسانی کے شکار قیدیوں کے بارے میں جو طبی رپورٹ مرتب کرتے ہیں اس میں جسمانی اذیت رسانی کا خال خال ہی تذکرہ ہوتا ہے۔
دو ہزار نو میں تینتالیس ممالک کے سات سو ڈاکٹروں نے عالمی میڈیکل ایسوسی ایشن کو تحریری درخواست دی کہ قیدیوں پر ٹارچر میں ملوث یا ٹارچر جاری رکھنے کا مشورہ دینے والے ڈاکٹروں کی شناخت چھپانے یا ان کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی پاداش میں اسرائیل کی میڈیکل ایسوسی ایشن سے باز پرس کی جائے۔کیونکہ ان حرکتوں سے طبی پیشہ بدنام ہو رہا ہے۔ عالمی میڈیکل ایسوسی ایشن نے اس عرضداشت کی بنیاد پر کوئی قدم اٹھانے کے بجائے اسے داخلِ دفتر کر دیا۔
دو ہزار گیارہ میں فزیشنز فار ہیومین رائٹس نامی ایک اسرائیلی تنظیم نے اسرائیلی میڈیکل ایسوسی ایشن سے ٹارچر زدہ قیدیوں کی دیکھ بھال پر متعین ڈاکٹروں کی تیار کردہ طبی رپورٹوں کی چھان بین کا مطالبہ کیا۔یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ان قیدیوں سے بھی انٹرویوز کیے جائیں جن کا دعویٰ ہے کہ انھیں ڈاکٹروں کی نگرانی میں ٹارچر کیا گیا۔ مگر اپنی ہی طبی برادری کے اس مطالبے کو اسرائیل کی میڈیکل ایسوسی ایشن نے کبھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔
دو ہزار سولہ میں انسانی حقوق سے متعلق فلسطینی تنظیم ادامیر نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں بیان کیا کہ قیدیوں کی دیکھ بھال پر مامور اسرائیلی ڈاکٹر قیدیوں کو اکثر لا علاج چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی رپورٹوں میں جسمانی ٹارچر کو چھپاتے ہیں۔اسی سال ٹارچر کے خلاف اقوامِ متحدہ کی خصوصی کمیٹی نے بھی یہ الزام دہرایا کہ ڈاکٹروں کی طبی رپورٹوں میں ٹارچر کے سبب بننے والے زخموں کا تذکرہ نہیں کیا جاتا۔
گیارہ اکتوبر دو ہزار تئیس کو اسرائیل کے وزیرِ صحت ایریل بسو نے اسرائیلی اسپتالوں کے لیے ہدایت جاری کی کہ غزہ کے فلسطینیوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم نہ کی جائے۔اس حکم کے بعد اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کو بیرونِ جیل اسپتالوں نے جو اپائٹمنٹ دیے تھے انھیں منسوخ کر دیا گیا۔اور ان قیدیوں کو جیل میں متعین ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔یہ ڈاکٹرمحکمہ صحت کے بجائے محکمہ جیل خانہ جات کے ملازم ہیں۔
سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی جیلوں اور نظربندی مراکز تک بین الاقوامی ریڈ کراس کی رسائی بھی روک دی گئی ۔چنانچہ اصل عقدہ تب کھلے گا جب یہ بہیمانہ تماشا ختم ہو گا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
[ad_2]