
وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ پرویز خٹک کو وزیر بنانے کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کا نہیں، اگر ملک میں صرف مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوتی تو پرویز خٹک کابینہ کا حصہ نہ ہوتے۔کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے کفایت شعاری کی پالیسی کو کابینہ میں توسیع کر کے خود ہی ختم کر دیا ہے۔ کفایت شعاری کی پالیسی کے تحت کابینہ کا سائز چھوٹا رکھنا تھا جس پر حکومت نے خود عمل نہیں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت بے بس ہے جس میں باہر کے لوگ بھی شامل کرائے جاتے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت صرف مسلم لیگ کی نہیں ہے۔
کابینہ میں نئے وزیر مصطفیٰ کمال بھی شامل کیے گئے ہیں جن کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے مگر ایم کیو ایم کے سربراہ اور وفاقی وزیر بھی مصطفیٰ کمال کے وزیر بنائے جانے کے فیصلے سے لاعلم تھے۔
کابینہ میں توسیع اور رد و بدل کا امکان تو پہلے سے تھا کیونکہ وزیر اعظم کو اپنی کابینہ میں کمی و بیشی کا اختیار ہے، کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ حکومت پرویز خٹک کو بھی اپنی کابینہ میں شامل کر لے گی جنھوں نے چند سال قبل مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر وزیر اعلیٰ کے پی ہوتے ہوئے پشاور سے اسلام آباد پر چڑھائی کی تھی اور اپنے بانی کی ہدایت پر مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے لیے بے پناہ مسائل پیدا کیے تھے اور (ن) لیگ کی وفاقی حکومت وزیر اعلیٰ کے پی کا کچھ بگاڑ نہیں سکی تھی مگر پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں پرویز خٹک کو کابینہ کا حصہ بنا دیا گیا اور پی ٹی آئی دور کا وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع اپنے بانی سے علیحدگی کے بعد (ن) لیگ میں شامل ہوئے بغیر حکومت میں وزارت داخلہ کا مشیر بنا دیا گیا جس پر خود (ن) لیگی بھی حیران ہیں۔
رانا ثنا اللہ خود بھی وزیر اعظم کے مشیر ہیں اور ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ موجودہ حکومت مسلم لیگ (ن) کی نہیں ۔ محکمہ داخلہ میں بااختیار وفاقی وزیر محسن نقوی ہیں ، ان کے محکمے میں اب مسلم لیگ (ن) کا وزیر مملکت بھی ہوگا اور ایک غیر منتخب مشیر بھی اس طرح اب محکمہ داخلہ کو ایک منتخب سینیٹر ایک رکن قومی اسمبلی اور ایک غیر منتخب تجربہ کار مشیر چلائیں گے۔
وزارت داخلہ چلانے والوں میں وزیر داخلہ اور مشیر داخلہ انھی کے نامزد کردہ ہیں جنھوں نے شہباز شریف کو دوبارہ وزیر اعظم اور آصف زرداری کو دوبارہ صدر مملکت بنوایا۔ ملک کی دو اہم وزارتیں ایسی ہیں جو ملک چلاتی آئی ہیں محکمہ داخلہ ملک چلاتا ہے اور محکمہ خزانہ نہ ہو تو محکمہ داخلہ بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ وزیر خزانہ پہلی بار وزیر بنے اور انھوں نے ملکی معیشت کو بہتر بنا کر بھی دکھا دیا جن کا مسلم لیگ (ن) سے کوئی تعلق نہیں مگر انھوں نے بہتر کارکردگی دکھائی۔ وزارت داخلہ میں ایک تجربہ کار مشیر بھی رکھا گیا ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنی قیادت کے ایک قریبی کو بھی وزیر مملکت بنوا دیا ہے جس کے بعد داخلی معاملات میں بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں اہم سمجھا جانے والا محکمہ داخلہ بھی عجیب رہا ہے جس میں وزیر اعظم کو ایسا وزیر داخلہ بھی اپنی کابینہ میں رکھنا پڑتا ہے جس کو رکھنے کے لیے وہ بے بس تو نہیں ہوتا جیسے موجودہ حکمران ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو واحد مکمل وزیر اعظم تھے جو ماضی میں خان عبدالقیوم خان پر تنقید بلکہ ان کا مذاق بھی اڑایا کرتے تھے جن کی اپنی مسلم لیگ قیوم تھی اور وزیر اعظم بھٹو نے انھیں وزیر داخلہ بنایا تھا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین اقتدار سے قبل عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد کیخلاف تھے مگر جب شیخ رشید نے اپنے سیاسی قائد نواز شریف کو چھوڑ کر چیئرمین پی ٹی آئی کی حمایت شروع کی تھی تو انھیں چیئرمین پی ٹی آئی نے حکومت میں آ کر پہلے وزیر ریلوے بنایا پھر ان پر مزید مہربان ہو کر وزیر داخلہ بنا دیا تھا مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب شیخ رشید گیٹ نمبر چار کے قریب تھے اور انھیں جس نے وزیر داخلہ بنایا تھا وہ خود بالاتروں کی وجہ سے ہی وزیر اعظم بنے تھے۔
ایمانداری کے دعویدار وزیر اعظم اتنے مجبور بھی ہو جاتے ہیں کہ انھیں اس کو بھی وزیر اعلیٰ پنجاب اور اسپیکر بنانا پڑا تھا جس کو وہ سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتے تھے۔
میاں نواز شریف 2013 میں دو تہائی اکثریت سے وزیر اعظم بنے تھے مگر خود مختار وزیر اعظم کو بھی جنرل پرویز کے وزیروں کو بھی اپنی کابینہ میں شامل کرنا پڑا تھا اور وہ اب بھی کابینہ میں وزیر ہیں اور یہ ہر حکومت میں ہوتا رہا ہے۔ موجودہ حکومت بھی پی ٹی آئی حکومت کی طرح بے بس ہے کیونکہ یہ بھی اتحادی حکومت ہے مگر خود مختار وزیر اعظم بھی کہیں نہ کہیں بے بس ہو جاتا ہے مگر وہ اپنے اختیار کے باوجود دوسروں کے لوگوں کو بھی کابینہ میں شامل کرنے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے۔