[ad_1]
اویسی نے لوک سبھا میں کہا کہ آئین سچا ہے، آئین کا آرٹیکل-26 مذہبی فرقوں کو مذہبی امور کے لیے ادارہ قائم کرنے اور بنائے رکھنے کا حق دیتا ہے، لیکن وزیر اعظم کہتے ہیں وقف کا آئین سے کوئی لینا دینا نہیں۔
لوک سبھا میں آئین پر ہوئی بحث کے درمیان آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے مسلمانوں سے متعلق کئی اہم ایشوز کو سامنے رکھا۔ انھوں نے مرکز کی مودی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ وقت میں مساجد، وقف بورڈس، اُردو، مسلم ثقافت سمیت اقلیتی طبقہ سے جڑی کئی چیزوں کو خطرہ لاحق ہے۔
اویسی نے ایوان زیریں میں اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ملک میں مساجد خطرے میں آ گئی ہیں، وقف بورڈ کو چھیننے کی کوشش ہو رہی ہے، مسلمانوں کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اردو کو بھی ختم کیا جا رہا ہے، مسلم ثقافت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ حالانکہ آئین سچا ہے اور اس کا آرٹیکل-26 مذہبی فرقوں کو مذہب امور کے لیے ادارہ قائم کرنے اور بنائے رکھنے کا حق دیتا ہے۔
وزیر اعظم مودی کے ایک بیان کا تذکرہ کرتے ہوئے اویسی نے کہا کہ ’’وہ کہتے ہیں وقف کا آئین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وزیر اعظم کو کون پڑھا رہا ہے؟ انھیں آرٹیکل-26 پڑھایا جائے۔ حکومت کا ہدف وقف ملکیتوں کو چھیننا ہے۔ وہ اسے اپنی طاقت کی بنیاد پر چھیننا چاہتے ہیں۔‘‘ اویسی نے مسلمانوں کو انتخابی سیاست سے الگ تھلگ رکھنے کا الزام بھی حکمراں طبقہ پر عائد کیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کو انتخاب لڑنے سے روکا جا رہا ہے۔ ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ مسلمان انتخاب نہیں جیت پا رہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر حد بندی کو نافذ نہیں کیا جا رہا ہے۔
اسمبلی و پارلیمانی حلقوں کی حد بندی معاملے پر اویسی نے تفصیل سے اپنی بات لوک سبھا میں رکھی۔ انھوں نے کہا کہ لوک سبھا اور اسمبلی کی حد بندی اس طرح کی گئی ہے کہ مسلم امیدوار انتخاب نہ جیت پائیں۔ 2007 میں سچر کمیٹی نے نئے سرے سے حد بندی کرنے کے لیے کہا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ جب نئی مردم شماری ہوگی تو سچر کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کیا جائے گا۔ آرٹیکل 15 اور 16 میں ریزرویشن ان کو نہیں ملا جن کا مذہب اسلام تھا۔ آئین میں آرٹیکل 25، 26، 29، 13، 14 اور 21 میں جو کچھ کہا گیا ہے، اس پر صحیح طریقے سے عمل نہیں ہو رہا ہے۔
اویسی نے کئی ریاستوں میں مسلمانوں کو پریشان کرنے والا قانون بنانے پر بھی اعتراض کیا۔ انھوں نے کہا کہ کئی ریاستوں میں ایسا قانون بنا دیا گیا کہ آپ یہ نہیں کھا سکتے، آپ وہ نہیں کھا سکتے۔ ہریانہ اور راجستھان میں پولیس کے اختیارات گئو رکشکوں کو دے دیے گئے ہیں اور ان کا غلط استعمال ماب لنچنگ کی شکل میں کیا گیا۔ مثال پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ صابر ملک کو پیٹ پیٹ کر مار دیا گیا کہ اس نے بیف کھایا تھا۔ بعد میں پتہ لگا تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ جنید اور ناصر کو بھی زندہ جلا دیا گیا۔ تبدیلی مذہب قانون بھی کئی ریاستوں میں لایا گیا۔ کیا مجھے اپنا مذہب بدلنے کے لیے حکومت سے پوچھنا پڑے گا؟ بی جے پی کا نیشنلزم ہندوتوا پر مشتمل ہے۔ اقلیتوں اور دلتوں کو کئی حقوق دیے گئے ہیں، لیکن ان کو یہ حقوق مل نہیں رہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link