[ad_1]
یہ تبصرے سپریم کورٹ نے 2018 اور 2017 میں مدھیہ پردیش جوڈیشل سروس میں شامل دو سول ججوں کی برطرفی کے معاملے میں کیے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کل یعنی 12 دسمبرکو کہا کہ ججوں میں دکھاوے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عدالت نے جوڈیشل سروس جوائن کرنے والے لوگوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے دو خواتین عدالتی افسران کو برطرف کرنے کے فیصلے کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس بی وی ناگارتھنا کی سربراہی والی بینچ کو دو افسران میں سے ایک کی فیس بک پوسٹ ملی، جس میں انہوں نے عدالتوں کے بارے میں اپنے تجربات کو فیس بک پر شیئر کیا تھا۔
بینچ نے کہا، “ایک جج کو سنیاسی یعنی راہب کی طرح رہنا پڑتا ہے اور گھوڑے کی طرح کام کرنا پڑتا ہے۔ ایک عدالتی افسر کو بہت زیادہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ جج کے لیے دکھاوے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔” بینچ نے مزید کہا، “ججوں کو فیصلوں پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ فیس بک جیسے پلیٹ فارم کھلے ہوئے فورم ہیں۔ کل یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر انہوں نے کسی نہ کسی معاملے پر اپنا نقطہ نظر دیا ہے۔”
بینچ میں جسٹس این کوٹیشور سنگھ بھی شامل تھے۔ یہ مقدمہ دو سول ججوں ادیتی کمار شرما اور سریتا چودھری کی برطرفی سے متعلق ہے، جنہیں بالترتیب 2018 اور 2017 میں مدھیہ پردیش جوڈیشل سروس میں شامل کیا گیا تھا۔
2023 میں کل چھ خواتین جوڈیشل افسران کو برطرف کیا گیا تھا۔ جب سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہا تو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے چار افسران کے سلسلے میں اپنا فیصلہ واپس لے لیا، لیکن ان دو افسران کے خلاف برطرفی کا حکم واپس لینے سے انکار کر دیا اور ان کے خلاف منفی تبصرے درج کیے گئے، جو سپریم کورٹ کے سامنے ایک مہر بند لفافے میں پیش کئے گئے۔
سینئر وکیل اور ہائی کورٹ کے سابق جج آر بسنت نے اس نظریے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جج کو سوشل میڈیا سے دور رہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور جو لوگ ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں انہیں جوڈیشل سروس میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔
[ad_2]
Source link