[ad_1]
دہلی ہائی کورٹ نے آج عمر خالد اور میران حیدر کی ضمانت سے متعلق عرضی پر سماعت کی، دونوں نے طویل قید، مقدمہ کی سماعت میں تاخیر اور مساوات کی بنیاد پر ضمانت کا مطالبہ کیا ہے۔
آج عمر خالد نے دہلی ہائی کورٹ میں اپنی ضمانت سے متعلق عرضی پر سماعت کے دوران اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’میرے خلاف تشدد یا فنڈنگ کا کوئی الزام نہیں ہے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے طویل قید، مقدمہ کی سماعت میں تاخیر اور مساوات کی بنیاد پر ضمانت کا مطالبہ کیا۔ دہلی فسادات معاملہ میں طویل عرصہ سے قید عمر خالد کے علاوہ میران حیدر کی طرف سے بھی ضمانت کی عرضی داخل کی گئی ہے جس پر دہلی ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ دہلی پولیس نے ملزمین کی دلیلوں پر جواب دینے کے لیے وقت کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت نے اب اس معاملے پر آئندہ سماعت کے لیے 12 دسمبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔
عمر خالد کی طرف سے پیش وکیل تردیپ پیس نے جسٹس نوین چاؤلا اور جسٹس شلندر کور کی ڈویژنل بنچ کے سامنے دلیلیں رکھیں۔ تردیپ پیس نے کہا کہ اس معاملے کے دیگر ملزمین کی طرح وہ بھی زیر غور قیدی کی شکل میں طویل وقت تک جیل میں رہنے کی بنیاد پر ضمانت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ عمر خالد اس معاملے میں پہلے سے ہی ضمانت حاصل کر چکے 4 شریک ملزمین کی طرح مساوات کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
ایڈووکیٹ تردیپ پیس نے عمر خالد کے خلاف عائد الزامات کا بھی تذکرہ کیا۔ انھوں نے عمر خالد کی طرف سے کہا کہ ’’مجھ سے یا میرے کہنے پر کسی بھی طرح کی کوئی وصولی نہیں کی گئی۔ دہلی تشدد سے متعلق ایف آئی آر میں میرا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ کسی بھی تشدد میں شرکت ظاہر کرنے کے لیے مجھ سے یا کسی اور سے کوئی ثبوت نہیں لیا گیا۔ میری طرف سے دہشت گردانہ عمل یا کسی بھی تشدد آمیز عمل کا کوئی الزام نہیں ہے۔ تشدد سے متعلق واحد ایف آئی آر ہے جس میں مجھے پھنسایا گیا تھا، اور مجھے بری کر دیا گیا ہے۔‘‘ ایڈووکیٹ نے یہ بھی کہا کہ خالد سے متعلق واحد بلاواسطہ عمل مہاراشٹر کے امراوتی میں دی گئی تقریر تھی۔ اس بارے میں انھوں نے دلیل دی کہ اس تقریر میں کہیں بھی تشدد کی اپیل نہیں کی گئی۔ عمر خالد کی طرف سے وکیل نے کہا کہ ’’میں دہلی سے ہزاروں میل دور تھا۔ بھیڑ کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں ہوا۔ یہ عدم تشدد کے گاندھی وادی اصولوں پر عمل کرنے والی تقریر ہے اور اس میںکہا جا رہا ہے کہ ہمیں اس قانون (شہریت ترمیمی ایکٹ) کی مخالفت کرنی چاہیے۔‘‘ ایڈووکیٹ پیس نے کہا کہ کسی نے بھی اس تقریر کو سننے کی زحمت نہیں اٹھائی، بلکہ فریق استغاثہ نے صرف ایک چنندہ کلپ پر بھروسہ کیا ’جو کسی سیاسی لیڈر کے ذریعہ مشتہر کیے جانے والے اشتعال کے مترادف‘ تھا۔
دہلی پولیس کے ذریعہ ثبوت کے طور پر واٹس ایپ گروپوں کی بات چیت پر ایڈووکیٹ پیس نے کہا کہ وہ (عمر خالد) 3 گروپوں کا حصہ تھے، لیکن ان میں سے 2 پر انھوں نے کوئی پیغام نہیں بھیجا۔ تیسرے گروپ ڈالے گئے ایک پیغام کے بارے میں انھوں نے کہا کہ عمر نے مقامِ احتجاج کی جانکاری تبھی دی جب کسی نے اس کے بارے میں پوچھا۔ ایڈووکیٹ پیس نے یہ بھی جانکاری دی کہ جب عمر خالد بہار میں تھا تو اسے دہلی پولیس کے ایک سینئر افسر کا فون آیا اور انھوں نے پولیس ہیڈکوارٹر پر احتجاجی مظاہرہ کو کتم کرنے کی گزارش کی۔ دہلی پولیس نے مطلع کیا کہ حالات سنگین ہیں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ دہلی کا دورہ کر رہے ہیں۔ خالد نے یہ پیغام گروپ پر شیئر کیا۔
واضح رہے کہ عمر خالد 13 ستمبر 2020 کو گرفتار کیے گئے تھے۔ وہ گزشتہ 4 سالوں سے جیل میں بند ہیں۔ پولیس نے 2022 میں ان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی۔ عمر خالد نے سپریم کورٹ میں بھی ضمانت کی عرضی داخل کی تھی، لیکن رواں سال فروری میں انھوں نے یہ عرضی واپس لے لی تھی۔ دراصل سپریم کورٹ نے انھیں ذیلی عدالت میں جانے کی ہدایت دی تھی۔ عمر خالد کے خلاف یو اے پی اے اور تعزیرات ہند کی مختلف دفعات میں کیس درج کیا گیا تھا۔ ٹرائل کورٹ کے ذریعہ ضمانت دینے سے انکار کے بعد انھوں نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔
ٹرائل کورٹ نے پہلی مرتبہ مارچ 2022 میں انھیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس نے اکتوبر 2022 میں انھیں راحت دینے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں عمر کالد کو عدالت عظمیٰ میں اپیل داخل کرنی پڑی۔ مئی 2023 میں سپریم کورٹ نے اس معاملے میں دہلی پولیس سے جواب طلب کیا تھا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ میں ان کی عرضی پر 14 مرتبہ سماعت ملتوی کی گئی۔ 14 فروری 2024 کو انھوں نے حالات میں تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے اپنی ضمانت عرضی واپس لے لی۔ سپریم کورٹ کی جسٹس بیلا ایم. ترویدی اور جسٹس پنکج متھل کی ڈویژنل بنچ 14 فروری کو اس معاملے سماعت کرنے والی تھی، لیکن عمر خالد کے وکیل سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل نے عدالت کو مطلع کیا کہ ضمانت عرضی واپس لی جا رہی ہے۔ سبل نے کہا تھا کہ حالات میں تبدیلی کے سبب ہم اپنا معاملہ واپس لینا چاہتے ہیں اور مناسب راحت کے لیے ذیلی عدالت میں جانا چاہتے ہیں۔ 28 مئی 2024 کو ٹرائل کورٹ نے عمر خالد کی دوسری ضمانت عرضی کو بھی خارج کر دی، جس کے بعد انھوں نے ایک بار پھر ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست داخل کی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link