Site icon اردو

بھونڈے طریقوں سے بنائے گئے مقدمات


ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ملک میں ہر حکومت بھونڈے طریقوں سے اپنے مخالفین کے خلاف بے بنیاد مقدمات قائم کراتی رہی ہے مگر وہ کیس کتنے مضبوط ہوتے ہیں اور ان میں کیا سزائیں ہوتی ہیں، یہ سب ہمارے سامنے ہے اور ان کے نتائج کا اندازہ پہلے ہی باآسانی ہو جاتا ہے ۔ مختلف مقدمات کے حوالے سے خبریں شایع ہوتی رہتی ہیں۔جیسے شیخ رشید کو مری میں درج ناجائز اسلحہ کیس سے بری کر دیا گیا۔ اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ جج نے 9 مئی کے واقعات پر درج مقدمے میں سابق وزیر خارجہ اور پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی کو بری کر دیا۔

سپریم کورٹ نے مشرف دور میں جنرل مشرف پر حملے کے تفتیشی افسر پولیس انسپکٹر کے قتل میں درج مقدمے کے تینوں ملزموں کو بری کر دیا۔ اس مقدمے کا ایک ملزم دوران قید فوت ہو گیا تھا باقی تین کو اب سپریم کورٹ نے بری کر دیا ہے۔ پولیس انسپکٹر کا قتل 2004 میں ہوا تھا اور گرفتار ملزمان کو بیس سال بعد بریت نصیب ہوئی۔ اس طرح کی خبریں تقریباً روز ہی میڈیا میں آ رہی ہیں اور زیادہ تر ملزمان بری ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں عدالت نے قرار دیا تھا کہ کسی ملزم کے خلاف درج مقدمے کے بعد دیگر شہروں میں اس کے خلاف اسی الزام میں مزید مقدمات کا اندراج غیر قانونی ہے۔

اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف حکمرانوں کی طرف سے جھوٹے مقدمات کا اندراج کوئی نئی بات نہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی وزیر اعظم بھٹو کی حکومت میں چوہدری شجاعت حسین کے والد اور مشہور مسلم لیگی رہنما چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ بہت مشہور ہوا تھا جس کے بعد بھی ایسے بے بنیاد اور بھونڈے مقدمات کے اندراج کا یہ سلسلہ نصف صدی کے بعد بھی جاری ہے اور مختلف سیاسی رہنماؤں کے خلاف ایسے مقدمات اب بھی درج ہو رہے ہیں اور ایک ہی الزام میں مختلف شہروں اور صوبوں میں یہ مقدمات اب بھی درج ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف بھی 15کلو ہیروئن برآمدگی کے مقدمے میں گرفتار بھی کیا گیا تھا جو اگر سچا ہوتا تو رانا ثنا اللہ کو موت کی سزا ہو سکتی تھی۔ پی ٹی آئی کا وزیر قسمیں کھا کھا کر مقدمہ درست ہونے کی تصدیق کرتا تھا اور جھوٹے مقدمے پر بضد تھا کہ مقدمہ سچا ہے اور میں نے جان خدا کو دینی ہے۔

اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں اپنے تمام سیاسی مخالفین کو بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرانے والے پی ٹی آئی کے بانی کا اب کہنا ہے کہ میرے خلاف حکومت نے ملک بھر میں دو سو سے زائد جھوٹے مقدمات درج کرا رکھے ہیں اور مختلف عدالتوں سے ان کے خلاف یہ جھوٹے مقدمات خارج بھی ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ایک رہنما کے خلاف پنجاب کے متعدد شہروں میں مختلف نہیں بلکہ ایک ہی جیسے مقدمات درج ہیں جہاں سے انھیں ضمانتیں ملیں یا انھیں بری کر دیا گیا اور عدالت نے قرار دیا کہ ایک خاتون ایک ہی جرم ایک ہی وقت میں ایسے جرائم کیسے کر سکتی ہے جو ممکن ہی نہیں اور درج مقدمے بے بنیاد ہیں۔

اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف 5 عشروں قبل جھوٹے مقدمات درج نہیں کرائے جاتے تھے اور یہ کام آمروں کے دور میں ہوئے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف سب سے زیادہ جھوٹے مقدمات پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی حکومتوں میں ہوئے اور خود سابق وزرائے اعظم بھی محفوظ نہیں رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھائے گئے، اور عمران خان جیل میں مقدمات بھگت رہے ہیں اور سزا یافتہ بھی ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف جیل میں رہے اور جلاوطنی کاٹی۔ ان پر بھی احتساب کے نام پر مخالفین پر مقدمات بنوانے کا الزام ہے۔ صرف محمد خان جونیجو اور ظفر اللہ جمالی محفوظ رہے تھے اور جنرل پرویز پر بھی غداری کا مقدمہ درج ہوا تھا مگر وہ بچا لیے گئے تھے اور متعدد سابق وزرائے اعظم اور سابق صدر زرداری پر اب بھی مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

پی ڈی ایم اور نگران حکومت میں بانی پی ٹی آئی کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہوئے ۔ حد تو یہ ہے کہ جو ملک میں موجود نہیں ہوتا ،اس کے خلاف بھی جھوٹے مقدمات درج ہو جاتے ہیں اور عدالتیں انھیں بری کر دیتی ہیں جس سے ایسے بھونڈے مقدمات بنوانے والوں کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ حقیقت میں ایسے مقدمات میں عدالتوں سے ملزمان کی بریت حکومتوں کی بے عزتی ہوتی ہے اور عدالتوں کو ایسے جھوٹے، بے بنیاد اور بھونڈے مقدمات بنوانے والوں پر جرمانے وہ بھی ان کی ذاتی حیثیت میں عائد کرنے ہوں گے ورنہ یہ سلسلہ کبھی نہیں تھمے گا اور عدالتوں پر بھی ایسے مقدمات کا بوجھ نہ صرف برقرار رہے گا بلکہ بڑھتا ہی چلا جائے گا اس کا تدارک بہت ضروری ہو چکا ہے۔





Source link

Exit mobile version