[ad_1]
آدھے سر کا درد یا مائیگرین ایک بہت عام مسئلہ ہے جس کا سامنا کسی بھی عمر کے فرد کو ہو سکتا ہے۔
آدھے سر کے درد کے نتیجے میں روزمرہ کی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور زیادہ بری خبر یہ ہے کہ مائیگرین کا ابھی کوئی علاج بھی موجود نہیں۔
برسوں سے سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مائیگرین کے نتیجے میں aura کیوں متحرک ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی دماغی علامت ہے جو مائیگرین سے قبل یا اس کے درمیان نمودار ہوتی ہے۔
اب یہ دریافت کیا گیا ہے کہ دماغ اور اعصاب کے باہمی رابطے کا طریقہ اس حوالے سے کردار ادا کرتا ہے۔
دنیا میں ہر سال ایک ارب سے زائد افراد کو مائیگرین کا سامنا ہوتا ہے اور ان میں سے 25 فیصد کو یہ تکلیف Aura کے ساتھ ہوتی ہے۔
اس علامت کے دوران لوگوں کو درد کے ساتھ روشنیاں نظر آتی ہیں اور ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو حقیقت میں موجود نہیں ہوتیں یا سنسناہٹ یا سن ہونے جیسے احساسات کا سامنا ہوتا ہے۔
اب چوہوں پر تجربات کے دوران اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی گئی۔ سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ کچھ کیمیکلز دماغ کی حفاظتی رکاوٹ سے نکل جاتے ہیں۔
جرنل سائنس میں شائع تحقیق میں ان کیمیکلز کے اخراج کے راستے کو تلاش کیا گیا تھا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایک مخصوص راستے سے یہ کیمکلز دماغ سے باہر نکل جاتے ہیں اور نیورونز ایک پروٹین بنانے لگتے ہیں جو کیلشیئم کی موجودگی میں جگمگانے لگتا ہے۔
کیلشیئم ایک ایسا عنصر ہے جس کو دماغی خلیات برقی سگنلز بھیجنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تحقیق کے دوران چوہوں کے دماغ میں ایک ٹریسر داخل کیا گیا تاکہ کیمیکلز کے بہاؤ کو ٹریک کیا جاسکے۔
اس تجربے سے انکشاف ہوا کہ یہ کیمیکلز دماغ سے باہر نکلتے ہیں تو کیلشیئم پر مبنی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ یہ سیال دماغ کے قریب اعصاب سے رابطے میں آتا ہے اور مائیگرین کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ اس عمل سے بیشتر افراد کو تکلیف اور ورم کے ساتھ aura کی علامت کا سامنا ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس عمل سے مائیگرین کی تکلیف برھتی ہے اور یہی عمل aura کی علامت سے بھی جڑا ہوا ہے۔
[ad_2]
Source link