[ad_1]
سنگم نیر سے کانگریس کے سینئر لیڈر بالا صاحب تھوراٹ نے بھی ای وی ایم اور وی وی پیٹ مشینوں کے ریکارڈ کی تصدیق کے لیے درخواست دی ہے۔
مہاراشٹر اسمبلی انتخاب کے بعد لگاتار الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق ای وی ایم اور وی وی پیٹ (ووٹر ویریفائیبل پیپر آڈٹ ٹریل) مشینوں پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے 104 امیدواروں نے الیکشن کمیشن کے پاس درخواست داخل کی ہے۔ اس درخواست میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مشینوں کی درستگی سے متعلق تصدیق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ درخواست دینے والوں میں کئی اہم سیاسی شخصیات شامل ہیں جنھوں نے گنتی کے عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مہاراشٹر اسمبلی انتخاب کے دوران مبینہ طور پر ہوئی بدعنوانی اور دھاندلی کے الزامات کے درمیان ریاست کے 95 اسمبلی حلقہ انتخاب کے 104 امیدواروں نے الیکشن کمیشن سے ای وی ایم اور وی وی پیٹ ڈاٹا کے درمیان مماثلت کی تصدیق کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ چیف الیکٹورل آفیسر (سی ای او) کے دفتر سے موصول اطلاع کے مطابق 31 اضلاع کے 95 اسمبلی حلقوں سے تعلق رکھنے والے 755 انتخابی مراکز کی مشینوں کے ریکارڈ کی دوبارہ تصدیق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں کارروائی کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جن اہم امیدواروں نے اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو درخواستیں دی ہیں، ان میں وزیراعلی ایکناتھ شندے کے سامنے شکست کھائے امیدوار کیدار دیگھے، نائب وزیراعلی اجیت پوار کے حریف امیدوار یوگیندر پوار، مکتئی نگر سے این سی پی لیڈر ایکناتھ کھڈسے کی بیٹی روہنی کھڈسے، سابق وزیر راجیش ٹوپے، ہتیندر ٹھاکر اور ان کے بیٹے چھتج ٹھاکر وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق سنگم نیر سے کانگریس کے سینئر لیڈر بالا صاحب تھوراٹ نے بھی ای وی ایم اور وی وی پیٹ مشینوں کے ریکارڈ کی تصدیق کے لیے درخواست دی ہے۔ ان کے علاوہ شیوسینا امیدوار ونود گھوسالکر (دہیسر)، نسیم خان (چاندیوالی)، فہد احمد (انوشکتی نگر) کے نام بھی درخواست دہندگان میں شامل ہیں۔
واضح رہے کہ ریاست میں متعدد گنتی کے مراکز پر انتخابات کے دوران استعمال ہونے والی ای وی ایم اور وی وی پیٹ مشینوں کے ریکارڈ میں تضاد پائے جانے کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ مثلاً ای وی ایم میں کُل ووٹ 100 دکھلائے گئے تھے، جبکہ وی وی پیٹ پر اس کی تعداد یا تو کم دکھلائی گئی تھی، یا پھر اس کی تعداد تقریباً دوگنی تھی۔
[ad_2]
Source link