سیاسی منظر نامہ بالخصوص پی ٹی آئی کے ماضی، حال اور مستقبل کو دیکھتے ہوئے مجھے اس سے بہتر اور جامع کوئی جملہ سجھائی نہیں دے رہا کہ:
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
ڈی چوک میں پیدا ہونے والی سیاسی انتہا پسند جماعت ڈی چوک میں اپنے انجام کو پہنچی اور فائنل کال “رانگ نمبر سے مس کال” ثابت ہوگئی۔ اس احتجاج میں مطالبات تو تین مگر درحقیقت بانی پی ٹی آئی کی رہائی یک نکاتی ایجنڈا تھا جو کسی ذی شعور انسان کی سمجھ میں نہیں آتا کیوں کہ بانی پی ٹی آئی جو اس وقت کرپشن اور دہشت گردی سمیت بے شمار مقدمات میں زیر حراست ہیں ان کو تحریک انصاف والے کیسے احتجاج کے ذریعے رہا کروا سکتے تھے؟
لمحہ فکریہ ہے کہ ملک کے نامور اور معقول وکلا اس نامعقول تحریک کے علمبردار تھے اور خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ انھیں چھڑانے کے لیے سر پر کفن باندھ کر نکلتے وقت فرما گئے کہ اگر ہم واپس نہ آئے تو ہمارے جنازے پڑھ لینا۔ بشریٰ بی بی نے کہا خان کو لے کر جائیںگے اور آخری سانس تک لڑیں گے۔ احتجاج کے لیے ملک بھر میں بھرپور تیاریاں کی گئیں لیکن مرکز خیبرپختونخوا کا وزیر اعلیٰ ہاؤس تھا جہاں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی غیر سیاسی مرشد اہلیہ بشریٰ بی بی، ایم این ایز، ایم پی ایز، وزرا، پارٹی رہنماؤں اور ٹکٹ ہولڈرز اور ذمے داران کو احتجاج میں بندے لانے کے لیے دھمکیاں دیتی رہی۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے حسب سابق اس احتجاج کے لیے صوبے کے سرکاری وسائل کا استعمال کیا، ایم پی ایز میں پیسے تقسیم کیے گئے، صوبے کی تمام تر مشینری اس احتجاج میں جھونک ڈالی، سرکاری اہلکاروں اور قوم کے جذباتی بچوں کو ورغلا کر اسلام آباد لے گئے۔ اتنی لمبی تیاریوں اور اودھم مچانے کے باوجود واحد ملک گیر جماعت کی دعویدار پی ٹی آئی پندرہ بیس ہزار سے زیادہ لوگ اکٹھے نہ کرسکی۔
تحریک انصاف کے ایم این اے یا ایم پی ایم، سینیٹرز اور ٹکٹ ہولڈرز ہر حلقے میں موجود ہوں گے اگر قومی اسمبلی اور گلگت بلتستان کو ملا کو پانچ صوبائی اسمبلیوں، سینیٹ کے ممبران و امیدواران کی تعداد مجموعی طور پر 1500 کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اور ہر حلقے میں ٹکٹ کے خواہشمند بھی کم از کم چار پانچ امیدوار ضرور ہونگے، ان کی تعداد بھی شامل کرلیں تو یہ 6000 لوگ بنتے ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے خاندان کے 4 افراد ملائیں تو یہ کم از کم 30 ہزار تعداد بنتی ہے۔
30 ہزار لوگوں کی تعداد تو صرف عہدے داروں، امیدواروں اور ٹکٹ کے خواہش مندوں اور ان کے اہل خانہ پر مشتمل ہوسکتی تھی۔ جو اپنی اپنی گاڑیوں میں بھی اسلام آباد باآسانی پہنچ سکتے تھے، انھیں کوئی تردد کرنا پڑتا نہ رکاؤٹوں کا سامنا۔ سب کی لسٹیں پی ٹی آئی کے پاس موجود ہوں گی، اگر انھیں ہی کہا جاتا کہ صرف آپ اور آپ کے گھر والے ہی احتجاج میں پہنچ جائیں، تو تعداد 30 ہزار ہوتی۔ اور اگر صرف ٹکٹ ہولڈرز اور ان کے رشتہ دار ہی آجاتے تو ان میں کوئی لاوارث ہوتا اور نہ کوئی گمشدہ ہوتا۔ ایسے لوگوں کو مارنا اگر ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں تھا، خدانخواستہ کوئی مر بھی جاتا تو لاش غائب کرنا بہت مشکل ہوتا اور ایسے بندے کی لاش کسی ڈسٹرکٹ میں جاتی تو ہنگامہ بپا ہوجاتا۔ اگر ایسا کوئی بندہ لاپتہ ہوجاتا، تو کہرام مچ جاتا کیونکہ ٹکٹ کا امیدوار سیاسی و سماجی اور مالی طور پر اپنے علاقے کا نامی گرامی بندہ عام عوام کی طرح لاوارث نہیں ہوتا۔
پی ٹی آئی کی کال پر پنجاب، سندھ اور بلوچستان نے متوقع رسپانس نہیں دیا، حتیٰ کہ ان صوبوں سے پی ٹی آئی ایم این ایز، ایم پی ایز، سینیٹرز رہنما اور ٹکٹ ہولڈرز تک نے اسلام آباد پہنچنے کی زحمت نہ کی۔ صرف خیبرپختونخوا سے بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور جو لوگ لے کر اسلام آباد چڑھائی کرنے گئے تھے بس وہی تھے، یا پھر اسلام آباد اور راولپنڈی سے جو تھوڑے بہت پہنچ سکے۔
ہم نے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ بشریٰ بی بی کسی مشن پر ہیں اور علی امین گنڈا پور کے کئی بار احتجاج کے دوران فرار ہونے سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے بھی وہ قابل اعتبار نہیں رہے۔ بشریٰ بی بی کی رہائی، اسلامی ٹچ کے ساتھ سعودی عرب کے خلاف متنازع بیان سے اپنے شوہر کی سیاست اور ان کی پارٹی پر خود کش حملے سے بہت کچھ واضح ہوچکا ہے، واقفان حال کہتے ہیں کہ اس احتجاج کے لیے بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور دونوں حکومت کے ساتھ ایک پیج پر تھے۔ احتجاج کے اعلان کے بعد ان دونوں شخصیات کی کوشش تھی کہ اپنے آپ کو بھی بچائیں اور کارکنوں کو بھی، کیونکہ ریاست کے لیے احتجاج کی آڑ میں جتھوں کا وفاقی دارالحکومت پر دھاوابولنا قابل قبول نہیں تھا وہ بھی ایسی صورتحال میں جب کسی دوست ملک کا سربراہ دورے پر ہو۔
احتجاج کی کال کے بعد مذکورہ دونوں شخصیات فیس سیونگ کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی رہیں کیونکہ ان کے لیے کال واپس لینا بہت مشکل تھا۔ حکومت کے ساتھ ایک انڈراسٹینڈنگ ہوئی اور طے پایا کہ پرامن احتجاج ہوگا، اسلام آباد آئیں گے سنگجانی میں جلسہ کریں گے اور واپس چلے جائیں گے۔ طے شدہ پلان کے مطابق پی ٹی آئی کا قافلہ بلا روک ٹوک اسلام آباد آیا، بیرسٹر سیف کے مطابق اس سارے منصوبے کا بانی پی ٹی آئی کو علم تھا اور اس پر وہ راضی تھے۔ جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ان کے علم میں نہیں تھا۔
ایک پیج پر ہوتے ہوئے بھی قیادت کے حوالے سے بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور کے مابین رسہ کشی جاری تھی، بشریٰ بی بی تو بانی پی ٹی آئی کا جانشین بن کر پارٹی قائد بننے کے لیے پر تول رہی تھیں اور اس منصوبے کے خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے وہ آگے بڑھ رہی تھیں مگر علی امین گنڈا پور کا موقف تھاکہ بندے میں لاؤں، صوبے کے وسائل میں لگاؤں اور کریڈٹ کوئی اور لے جائے، کیوں؟ جھگڑے کے بعد طے ہوا کہ قیادت علی امین گنڈا پور کریں گے۔ پشاور سے اسلام آباد تک گنڈا پور ہی قیادت کرتے نظر آئے، کہیں بشریٰ بی بی دکھائی نہیں دیں، اسلام آباد پہنچنے تک لوگوں کی تعداد کچھ معقول دکھائی دینے لگی جسے دیکھ کر بشریٰ بی بی کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا اور وہ گاڑی سے باہر نکل آئیں، اس گھریلو خاتون نے باہر نکل کر کارکنوں کو سیاستدانوں کے روایتی ہوائی بوسوں سے نوازا، دھواں دھار تقریر کہ جس میں انھوں نے ڈی چوک جانے کا اعلان کردیا۔
ان کا گاڑی سے باہر نکلنا اورڈی چوک جانے کا اعلان جہاں حکومت کے ساتھ ہونے والی انڈراسٹینڈنگ کی خلاف ورزی تھی وہاں علی امین گنڈاپور کی قیادت کرنے کے خواب پر بھی خود کش حملہ تھا۔ علی امین نے اس دوران ایک دو بار احتجاج سے جانے کی کوشش کی لیکن کارکنوں نے انھیں بھاگنے نہیں دیا حالانکہ وہ قسمیں کھا کر کہتے رہے کہ میں وضو کرنے جارہا ہوں لیکن ورکرز نے ان کی ایک نہ سنی۔ دوسری طرف حکومت بھی سیدھی ہوگئی اور اعلان کردیا کہ ڈی چوک آئے تو سختی سے نمٹا جائے گا۔ یوں پارٹی پر قبضے کی اندرونی لڑائی نے پی ٹی آئی کی مقبولیت کی ہانڈی کو ڈی چوک میں لاکر پھوڑ دیا۔ ڈی چوک پہنچتے ہی آپریشن شروع ہوگیا۔
علی امین گنڈا پور جو سر پر کفن باندھ کر آئے تھے اور بشریٰ بی بی جو غیرت کے نام پر پٹھانوں کے جذبات سے کھیل رہی تھی انھیں آخری سانس تک کھڑے رہنے کی تلقین کر رہی تھی ایک ہی گاڑی میں فرار ہوئے اور قوم کے بچوں کو بے یارو مددگار سڑک پر سیکیورٹی فورسز کے رحم و کرم پر حسب روایت چھوڑ کر احتجاجی تحریک کی آخری فائنل کال کو “رانگ نمبر سے مس کال ” ثابت کر دیا، کیونکہ جس ذلت و رسوائی کا ان کو سامنا کرنا پڑا اور پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اس کے بعد تو نہیں لگتا کہ دوبارہ ورکرز ان کی کسی کال پر نکلیں گے۔
دوسری طرف حکومت نے 18 ہزار افراد کے خلاف خوفناک جرائم کے پرچے درج کر لیے، جن میں بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور سمیت تحریک انصاف کے تمام قائدین، ایم پی ایز، ایم این ایز اور سینیٹرز شامل ہیں۔ اب احتجاج “تحریک استعفیٰ” میں بدل چکی ہے، لگتا ہے بشری ٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور کی “مشترکہ کاوشوں” سے بانی پی ٹی آئی کی سیاست ڈی چوک میں دفن ہوگئی اور یوں جو جماعت اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے ڈی چوک کے 126 دن کے دھرنے سے پروان چڑھی تھی، وہ اسٹیبلشمنٹ کے مد مقابل اسی ڈی چوک میں 126 منٹ بھی ٹھہر نہ سکی اور ڈی چوک سے ڈی چوک تک کا سفر تمام ہوا۔