[ad_1]
جس طرح اولاد والدین کے لیے بیش قیمت نعمت ہے اسی طرح بوڑھے والدین اولاد کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ہم کس سلسلے میں گفتگو آگے بڑھانا چاہتیہیں۔ والدین کی عظمت، ان کی خدمت، ان کی بے کراں شفقت میں زندگی گزارنا اولاد کے لیے کسی فروزمندی سے کم نہیں۔ آج کے ہمارے اس نئے معاشرے میں جس طرح چھوٹے بڑے کی تمییز ختم ہوگئی ہے۔کچھ یوں ہی والدین کی عظمت و اہمیت بھی دن بدن گھٹتی جارہی ہے۔ نو نسل کو نہ والدین کی قدر نہ ہی کسی دینی ومذہبی رسم ورواج سے دلی لگاؤ۔ اس فیجی یوگ میں اگر کسی کی اہمیت ہے تو وہ دھن دولت کی اورمال وزر کی ہے۔ اس کے علاوہ کسی شء کی کوئی قدر ومنزلت ہے ہی نہیں۔ سیم وزر کی ریل پیل نے انسان کو انسان سے دور کردیا۔ اس دنیا میں رب کی عبادت کے بعد رب نے کسی چیز کا حکم صادر فرمایا ہے تو وہ والدین سے حسن سلوک اور نیک برتاؤ کا۔ جیسے کہ قرآن گویاں ہے ” اور ہم نے آدمی کو حکم دیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے، اس کی ماں نے اسے پیٹ میں مشقت سے رکھا اور مشقت سے اس کوجنا اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے یہاں تک کہ جب وہ اپنی کامل قوت کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیاتو اس نے عرض کی: اے میرے رب!مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پراور میرے ماں باپ پر فرمائی ہے اور میں وہ نیک کام کروں جس سے تو راضی ہوجائے اور میرے لیے میری اولاد میں نیکی رکھ،میں نے تیری طرف رجوع کیااور میں مسلمانوں میں سے ہوں (احقاب:15) اسی مضمون کو اللہ تبارک وتعالی نے قرآن میں متعدد مرتبہ بیان فرمایا تاکہ بنی نوع انسان والدین کی عظمت اور رفعت شان بحسن وخوبی سمجھ کر اس رشتے کو بحسن وخوبی نبھائیں۔ ان کی خدمت کو زندگی وزیست کا ما حصل سمجھیں۔ ایک مرتبہ محسن کائنات ﷺ کے دربار میں ایک شخص آیا اور عرض کیا ”دنیا میں میرے حسن سلوک کے مستحق کون لوگ ہیں؟ ”آپ نے فرمایا: ”تیری ماں ”اس نے عرض کی ”پھر کون؟”آپ ﷺنے فرمایا ”تیری ماں ”اس نے عرض کیا پھر کون؟؟ فرمایا: ”تیری ماں ”۔ چوتھی مرتبہ اس نے پوچھا تو آپ ﷺنے فرمایا ”تمھارا باپ!”(صحیح البخاری)
ماں رحمتوں کی کہکشاں ہے تو باپ شفقتوں کا سائباں۔۔۔۔۔ ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو باپ اس جنت کے بیچ کا دروازہ ہے۔۔۔۔۔اولاد کو پیاس لگتی ہے تو بے چینی ماں کو ہوتی ہے، بھوک سے یہ بلبلاتا ہے تو روزی باپ ڈھونڈ کر لاتا ہے۔ زخم اس کو لگتا ہے تکلیف ماں کو ہوتی ہے، بیمار یہ ہوتا ہے تو باپ ڈاکٹروں کے در کھٹکھٹاتا ہے۔۔۔۔ جب خوشیاں آتی ہیں تو والدین اپنی خواہشات کو قربان کرکے ہمیں خوش کرتے ہیں۔وہ برہنہ رہ کر اولاد کو انمول و قیمتی پوشاک پہنا کر حسن دیکھتے ہیں۔ دلوں میں غموں کا سمندر رکھ کر چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہیں۔ تکلیفوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔ یہ سب دنیا میں کوئی کرسکتا ہے تو وہ والدین ہی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کا رتبہ بھی اتنا ہی بلند وبالاہے۔ انہیں قربانیوں کی وجہ سے محسن کائنات ﷺ نے اس شخص سے کہا کہ تیرے حسن سلوک کے حق دار تیرے والدین ہیں۔ اس ایک حدیث سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ان کا رتبہ کتنا بلند وبالا اور ارفع واعلی ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی والدین کی قدر ومنزلت کے بارے میں جانتا ہے۔ پھر یہاں سوال یہ ہوتا ہے کہ ہماری نئی نسل والدین کی ناقدری کیوں کر رہی ہے۔ تو جواب سنئے والدین کے نا فرمانبرداری وخلاف ورزی کا واحد سبب خود والدین ہی ہیں۔ آپ حیران و ششدر ہونگے کہ والدین کیسے اس کے سبب ہیں؟ تو اس تلخی کو برداشت کرتے ہوئے سنئے اس لیے کہ والدین نے اپنی اولاد کو صحیح تربیت ہی نہ دی۔ والدین نے اپنی اولاد کی تمام دنیوی خواہشات کی تکمیل تو کی۔ لیکن انہیں کبھی دینی تعلیم سے آراستہ نہیں کیا۔ انہیں اچھے اچھے پوشاک تو پہنایا لیکن کبھی انہیں اخلاق واقدار کی اہمیت نہیں سمجھائی۔ پھر جب یہ بڑے ہوئے تو انہیں والدین کے نا فرمانبردار، سرکش اور کھرے گستاخ وبے ادب نکلے۔
پھر ان نافرمان اولاد سے کونسی امیدیں وابستہ ہوسکتی ہیں۔ یہی نمک حرام اولاد والدین کو فرسودہ خیال اور بوجھ تصور کرکے انہیں اولڈ ایچ ہوم میں بھیج دیتی ہیں۔ پھر کیا اس اندھیرے گھر میں آنسوؤں سے اپنے دل کے غم کو دھوتے رہتے ہیں۔ وحشت وتنہائی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ پھر دنیا سے انہیں گلہ وشکوہ کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہتا۔
اولڈ ایج ہوم درحقیقت مغربی تہذیب وتمدن کا سرمایہ ہے۔ جس طرح مسلم قوم یہود ونصاریٰ کو اپنا آئیڈیل سمجھنے لگے تو کچھ یوں ہی ان کی ہر چیز کو اپنانے کو باعث فخر و افتخار سمجھنے لگے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں اس لیے کہ آقائے دوجہاں ﷺ نے پہلے ہی پیش گوئی فرمائی تھی کہ میری امت یہود ونصاریٰ کے راستوں کو اپنائے گی۔ جیسے کہ آقائے دوجہاں ﷺ فرماتے ہیں ” تم لازمی ان طور طریقوں کی پیروی کروگے جو تم سے پہلے تھے۔(الحدیث)
گویا مسلم سوسائٹی میں اولڈ ایج ہوم مغربی تہذیب وثقافت کی مرہون منت ہے۔ آئیے اس اولڈ ایج ہوم کی تاریخ پر سرسری نگاہ دوڑاتے ہیں۔ تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ یہ مصیبت کیسے ہندوستان پھر مسلمانوں میں پہنچی۔ Friend in need society of madras کی سرپرستی میں سن 1882 ء میں کلکتہ میں پہلی مرتبہ ناداروں اور بے یارومددگار بزرگوں کے لیے مذکورہ بالا تنظیم کی زیر قیادت ایک ہاسٹل کا انتظام کیا گیا تھا۔ لیکن باقاعدہ مستقل اولڈ ایج ہوم کا آغاز ریاست کیرالا کے علاق? تروشور میں سن 1911ء کوچن کے بادشاہ راجہ ورما کی سرپرستی ہوا تھا۔ جو راجہ ورما اولڈ ایج ہوم کے نام سے موسوم تھا۔ اولڈ ایج ہوم کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس وقت معمر وعمر رسیدہ لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔
2010 کے سروے کے مطابق ہندوستان میں 1258 اولڈ ایج ہوم سرگرم عمل ہیں۔ جس میں ہزاروں معمر بزرگان وطن اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ عموماً ان اولڈ ایج ہوم میں دس بارہ سال قبل کوئی مسلمان گھرانے کا کوئی فرد نہیں رہتا تھا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ گردش ایام نے یہ دن بھی دکھائے کہ آج کل مسلم سوسائٹی کی ہی سرپرستی وسربراہی میں اولڈ ایج ہوم کھولے جارہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر مسلمان غیر قوم کے اولڈ ایج ہوم میں جائنگے تو کہیں کفر و ارتداد شکار نہ ہو جائے۔ اس اندیشہ کی وجہ سے مسلمان ہی اولڈ ایج ہوم کھولنے پر مجبور ہیں۔ اک طرف مسلم خانوادوں میں بزرگوں کو گھر سے بے گھر کیا جارہا ہے تو دوسری طرف انہیں گھر کے لیے بوجھ اور فرسودہ خیال گردانا جارہا ہے ایسے پر آشوب وروح فرسا حالات میں مسلم قوم اولڈ ایج ہوم کے محتاج وضرورتمند نظر آرہے ہیں۔
تو اولڈ ایج ہوم کھولنے والوں کی کوئی خطا وجرم نہیں۔ بلکہ مجرم تو وہ ہیں جو اپنے والدین اور خاندان کے معمر وعمر رسیدہ لوگوں کو اولڈ ایج ہوم جانے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان سب کی وجوہات پر اگر ہم غور کریں تو نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ قوم مسلم اسلامی تعلیمات اور نبوی ارشادات سے کافی دور ہیں۔ اگر یہ قوم اسلامی تعلیمات اور نبوی توجیہات کو اپناتی تو کبھی ان سنگین حالات کا سامنا کرنے کی ضرورت نہ پڑھتی۔ شاعر نے کیا خوب کہا
طریقِ مصطَفٰے کو چھوڑنا ہے وجہِ بربادی
اِسی سے قوم دنیا میں ہوئی بے اقتدار اپنی
اللہ ہم سب کو اپنے والدین کا فرمانبردار اور خدمت گزار بنائے اور رمضان المبارک کے تمام انوار وبرکات سے مالا مال فرمائے آمین
[ad_2]
Source link