موجودہ حالات سے یہ بات تو طئے نظر آتی ہے کہ تنگ نظر سیاستدان اپنی دوکانیں چمکانے کے لیے پرامن معاشرے کوخطرے میں ڈالتے رہیں گے۔
مدھیہ پردیش پولیس گئوکشی کے ملزمین سے قابل اعتراض نعرہ لگواتے ہوئے، ویڈیو گریب
مدھیہ پردیش پولیس گئوکشی کے ملزمین سے قابل اعتراض نعرہ لگواتے ہوئے، ویڈیو گریب
ایسا لگتا ہے کہ مرکز سمیت مختلف ریاستوں میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) فرقہ پرستی کے دلدل میں اس سطح تک دھنس چکی ہے جہاں سے واپسی مشکل نظر آ رہی ہے۔ حالانکہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھگوا پارٹی کو لعن طعن کا سامنا ہے، مگر یہ پارٹی اقتدار کے نشے میں اس قدر مدہوش ہے کہ اسے عزت اور بے عزتی کی ذرا بھی فکر نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ ہندوستان اور ملک کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے، کیونکہ ہندوستان کی اچھی خاصی آبادی بیرون ممالک مقیم ہے جہاں مقامی لوگ ہمارے شہریوں کو بھی تنگ نظر سمجھنے لگے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو ہمارے بے روزگار نوجوانوں کے لیے روزگار کی تلاش میں بیرون ممالک سفر کرنا مشکل ہو جائے گا۔
دنیا جانتی ہے اور اعتراف بھی کرتی ہے کہ ہندوستان کی اصل طاقت اس کا تنوع ہے۔ یہاں ہر تہوار کو یکجہتی اور بھائی چارے کے ساتھ منایا جاتا ہے، چاہے وہ رمضان ہو، ہولی ہو، عید ہو یا ایسٹر… اور یہی ہندوستان کو دنیا میں دیگر ممالک کے مقابلے ممتاز اور منفرد مقام دلاتا ہے۔ مگر ہمارے ہی ملک کے چند فرقہ پرستوں کی وجہ سے ہندوستان کی ممتاز حیثیت متاثر ہو رہی ہے، اور ان سب کے لئے بی جے پی ذمہ دار نظر آ رہی ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ جہاں جہاں اس پارٹی کی حکومتیں ہیں وہاں آئے دن نفرت اور شر انگیزی کے دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ اس سے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری اور سیکولر ملک کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے۔ مگر خود کو راشٹر بھکت کہلانے والے فرقہ پرستوں کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔
جن ریاستوں میں بی جے پی برسر اقتدار ہے، وہاں شر پسندوں کے ساتھ انتظامیہ کے افسران بھی فرقہ وارانہ سوچ کے ساتھ کام کرتے محسوس ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں ان ریاستوں میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے۔ معمولی سی باتوں پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان کی جائیداد و املاک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ سنگین مقدمات میں نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں قید کیا جا رہا ہے، اور ان کی ضمانتوں کو بھی رکوانے کی جدوجہد کی جا رہی ہے۔ اترپردیش کی مثال سارے ملک کے سامنے ہے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں بھی انتظامیہ کی جانب سے قانون اور دستور کی بالادستی کو یقینی بنانے کی بجائے ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس کے ایجنڈہ پر عمل کیا جا رہا ہے، اور آر ایس ایس کے اشاروں پر کام کیا جا رہا ہے۔
ویسے تو ہندوستان بھر میں پرامن ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں جنونی عناصر نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ہر گوشے سے سماج میں فرقہ واریت کا زہر گھولا جا رہا ہے اور قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ مختلف تنظیمیں اس کام کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس کام میں میڈیا نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی، تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ پر بھی اس کے اثرات مرتب ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ اس کا ثبوت بی جے پی زیراقتدار ریاست مدھیہ پردیش ہے جہاں گزشتہ دنوں 2 مسلم نوجوانوں کو گائے ذبح کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ گاؤ ذبیحہ پر پابندی ہونے کی وجہ سے اگر کسی نے گائے ذبح کی ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہئے تھی۔
پولیس کا کام محض ملزمین کو گرفتار کرنا، مقدمات درج کرنا اور پھر انہیں عدالت میں پیش کر دینا ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ پولیس اپنے طور پر بھی ایسے کام کر رہی ہے جو خلاف قانون ہیں۔ پولیس نے ملزمین کو گرفتار کرتے ہوئے انہیں ایک کلومیٹر تک پریڈ کروائی اور ان سے انتہائی شر انگیز و متنازعہ ’گائے ہماری ماتا ہے‘ اور ’پولیس ہمارا باپ ہے‘ جیسے نعرے لگوائے۔ یہ مدھیہ پردیش پولیس کی انتہائی شرمناک حرکت ہے اور ایسا کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہوئے انصاف کیا جانا چاہئے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حالیہ عرصہ میں جس طرح سے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کا کام کیا گیا تھا اس کے نتیجہ میں اب یہ فرقہ واریت کا زہر مزید پھیلنے لگا ہے اور بی جے پی زیراقتدار اترپردیش اس معاملے میں سب سے آگے دکھائی دیتا ہے۔ یہاں وزیر اعلیٰ سے لے کر گلی کوچے کے نیتا اور پولیس عہدیدار تک ہندو-مسلم کی بات کرنے لگے ہیں، جبکہ ان تمام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہندو ہو یا مسلمان سب کو ساتھ لے کر چلیں، سب کے ساتھ مساوی سلوک کریں۔ پولیس انتظامیہ ہو یا قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں ان کو بھی ہندو-مسلم کا راگ الاپے بغیر، یہ دیکھے بغیر کہ جمعہ سال میں کتنی بار آتا ہے اور ہولی کتنی بار آتی ہے اپنا کام کسی جانبداری اور امتیاز کے بغیر کرنا چاہئے۔
حد تو یہ ہو گئی ہے کہ اترپردیش میں ہوا پانی کو بھی ہندو-مسلم کا رنگ دینے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ عیدوں اور دیگر تہواروں کو تو یہ رنگ دے دیا گیا ہے، اور ایسا نہیں ہے کہ یہ کوشش ابھی ہوئی ہے۔ طویل عرصہ سے یہ کوششیں کی جا رہی تھیں اور اب یہ کوششیں ایک قدم آگے بڑھ کر دوسرے اور خطرناک مرحلے میں پہنچتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ اترپردیش ریاست ہی تھی جہاں ملک کے وزیر اعظم نے سماج کے 2 طبقات کے مابین ایک خط فاصل کھینچنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے عید اور دیوالی کا ذکر کیا تھا اور قبرستان و شمشان کا تذکرہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ ملک کے وزیر اعظم ہوں یا پھر ریاست کے وزیر اعلیٰ ہوں، ان کو سماج میں اگر دوریاں ہیں تو انہیں ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، لیکن یہاں تو معاملہ اس کے بالکل برعکس ہی ہے۔
موجودہ حالات سے یہ بات تو طئے نظر آتی ہے کہ تنگ نظر سیاستدان اپنی دوکانیں چمکانے کے لیے پرامن معاشرے کو خطرے میں ڈالتے رہیں گے، بلکہ اور بھی شدت کے ساتھ اس طرح کے مسائل کو ہوا دیتے ہوئے سماج میں نراج اور بدامنی و بے چینی پیدا کرتے رہیں گے۔ اب ضرورت ہے کہ عوام اس بات کو سمجھیں اور ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کریں، ان کو مسترد کریں۔ عوام کو اب اس طرح کی کوششوں اور سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے خود آگے آنا چاہئے تاکہ سیاستدان اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور ہو جائیں اور ملک میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضاء کو پروان چڑھایا جا سکے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔