[ad_1]
پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر خوارج کی در اندازی کی کوشش کو سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا، جس کے نتیجے میں پانچ خوارج ہلاک اور چار زخمی ہوگئے جب کہ پاک فوج کے تین جوانوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے، جام شہادت نوش کیا۔ آئی ایس پی آرکا کہنا ہے کہ عبوری افغان حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرحد پر موثر انتظامات کو یقینی بنائے، توقع کی جاتی ہے کہ افغان عبوری حکومت اپنی ذمے داریاں پورا کرے گی اور خوارج کے ذریعے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کو جاری رکھنے کے لیے افغان سرزمین کے استعمال سے انکارکرے گی۔
افغان طالبان دوحہ میں امریکا کے ساتھ معاملات طے کر افغانستان میں اقتدار پر قابض ہوئے تو اس وقت کی حکومت ، اسٹیبلشمنٹ اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین اور تجزیہ کاروں نے پاکستان میں اس تاثر کو پھیلایا کہ افغانستان آزاد ہوگیا ہے، اب یہاں بھارت کے اڈے اور اثرورسوخ ختم ہوجائے گا، افغان طالبان ٹی ٹی پی کا خاتمہ کردیں گے، یوں پاکستان کی شمال مغربی سرحد محفوظ ہو جائے گی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہونے سے پاکستان معاشی استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا، لیکن ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور جب کہ کھانے کے اور ہوتے ہیں۔
بہت جلد یہ سارے دعوے، تجزیے اور امیدیں دم توڑ گئے ہیں۔ افغانستان کے حکمران چاہیے وہ لبرل ازم کے دعویدار ہوں یا مذہب کے نام لیوا ہوں،پاکستان کے بارے میںان کا حسد اور بغض ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ پاکستان میں مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل ایک بااثرگروہ نے پاکستانی عوام کے مفادات کے برعکس کام کیا ، پاکستان کی شمال مغربی سرحدات کی سوشیوپولیٹیکل،جیوپولیٹکل اورملڑیسٹریٹجیکل ہنڈلنگ کے بجائے ایک غیرحقیقی حکمت عملی اختیار کی۔وسط ایشیا اور مغربی ایشیا کی پاور اسٹرگل ہمیشہ سے جنوبی ایشاء کے شمال اور مغرب میں پناہ اور مددکے لیے منتیں ترلے کرتی آئی ہے لیکن وہ جنوبی ایشیا کی دھرتی اور اس کے باسیوں کے ساتھ کبھی مخلص نہیں رہے۔تاریخ اس کی شاہد ہے۔
پاکستان کے لیے اسٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی بہت مہنگی ثابت ہوئی ہے۔افغانستان کی ظاہر شاہی حکومت اور اس کے کارپردازوں نے پاکستان کی مخالفت کا آغاز کیا‘ سردار داؤد نے مخالفت کو بڑھاوا دیا‘پھرسرد جنگ میںافغان مجاہدین مدد کے لیے پاکستان کے پاس آئے‘ وہ اس ملک میں رہے اور یہیں سے سوویت یونین اور کیمونسٹ افغان حکومت کی مشترکہ فوج کے خلاف امریکا کی مد دسے جہاد کا آغاز کیا۔جب مجاہدین کو افغانستان میں اقتدار ملا توایک نئی تباہی کے دور کا آغاز ہوا۔اس کی آگ سے طالبان برآمد ہوئے اور پھر القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے ہم رکاب بن گئے۔
یہیں سے پاکستان کے لیے خطرات کا آغاز ہوااور اس کا تسلسل تاحال جاری ہے۔ دیگر افغانوں کی طرح طالبان لیڈروں نے بھی پاکستان میں بہت وقت گزارا۔ ان کی شوریٰ کا تو نام ہی کوئٹہ شوریٰ تھا۔ طالبان رہنماؤں نے اپنے خاندانوں کو پاکستان میں رکھا، کاروبار کیا اور خوب خوب جائیدادیں بنائیں۔ پاکستان نے طالبان کے حکومت سنبھالنے پر خوشی بھی بہت منائی۔ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے باقاعدہ بیان دیا کہ ’’ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں‘‘ پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر طالبان کے لیے بہت کام کیا مگر طالبان کی حکومت، ماضی کی حکومتوں کے نقش قدم پر چلی، پاکستان کے ساتھ بغض اور اعناد پر مبنی پالیسی اختیارکی۔ طالبان بھی ڈیورنڈ لائن کومتنازع بنانے میں پیش پیش ہیں۔ پاکستان نے کروڑوں روپے خرچ کر کے اپنی سرحدکے اندر اپنے علاقے میں جو حفاظتی باڑ لگائی تھی، اسے جگہ جگہ اکھاڑنے کے لیے شرانگیزی ہوتی رہی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں قتل وغارت کا بازارگرم کیے ہوئے ہے۔
ہمارے ہاں ایک بات تو واضح ہے کہ اب ٹی ٹی پی سے بات نہیں کرنی اور افغانستان کی طرف سے بھی صرف باتیں ہی ہیں، عملی طور پرکچھ نہیں ہے۔ ٹی ٹی پی، پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کر رہی ہے اور چینی شہریوں پر حملے اور دہشت گردی کے دوسرے واقعات میں ملوث ہے۔ سرحد پار سے آنے والے یہ خطرات علاقائی سلامتی کے لیے مزید پیچیدہ بنتے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے یہ مسئلہ افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے اور ان پر زور بھی دیا ہے کہ وہاں جو دہشت گردگروہ موجود ہیں،آپ انھیں روکیں اور ان کے خلاف کارروائی کریں، لیکن پاکستان کو ابھی تک افغانستان سے کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی ملک میں خود کش حملوں اور دیگر جرائم میں ملوث ہے۔ٹی ٹی پی اپنی ذیلی تنظیموں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کراتی ہے۔مختلف ناموں سے قائم یہ تنظیمیں افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے ساتھ منسلک ہیں۔ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ بلوچستان میں علیحدگی پسند جماعتوں بی ایل اے، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بی ایل ایف کی نہ صرف مالی مدد کررہی ہیں بلکہ عالمی سطح پر ان کے حق میں سفارتکاری بھی کرتی ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تقریباً ڈھائی ہزارکلومیٹر طویل بین الاقوامی سرحد کے آر پار آنے جانے اور ٹرانزٹ ٹریڈ کا مسئلہ ہمیشہ رہا ہے، پاک افغان سرحد کو دنیا کی اُن سرحدوں میں شمارکیا جاتا ہے جو انتہائی غیرمحفوظ (Porous ) ہیں۔ 1947کے بعد سے افغانستان کی ہر حکومت نے سرحد کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے۔
ابتدائی برسوں کے دوران قبائلی لشکروں کے ذریعے اس کی حیثیت کو متاثرکرنے کی ناکام کوششوں کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم اور دوسرے مقررکردہ مقامات سے تجارت اور آمدورفت کی اجازت دی گئی ہے۔جب پاکستان کی طرف افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو تقریباً ڈیڑھ دہائی تک پاک افغان سرحد پر بلا روک ٹوک اورکسی قسم کی سفری دستاویزکے بغیر آنے جانے کی اجازت رہی ہے۔ اب چونکہ پاکستان میں افغان مہاجرین مسائل کا سبب بن گئے ہیں تو پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم 7لاکھ افغانیوں کو پچھلے سال کے دوران واپس بھیجا ہے۔یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب پاکستان میں خودکش دھماکے شروع ہوئے۔
یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا تاکہ پاکستان میں بدامنی کی لہرکو روکا جاسکے۔ پاکستان کی طرف سے کہا گیا کہ افغان شہری جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں وہ اسمگلنگ اور دیگرجرائم میں بھی ملوث ہیں۔ افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کا یہ سلسلہ جاری ہے ۔ یہ ایک بڑی پیش رفت اور اہم قدم ہے۔ پاکستان نے جب تک افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع نہیں کیا تھا، اس وقت پاکستان میں 40 لاکھ افغانی موجود تھے، جن میں سے 17 لاکھ کے پاس رہائشی دستاویزات نہیں تھیں اور نہ ہی ان کا پاکستان میں کہیں اندراج موجود تھا۔
افغانوں کو اگر یہ شکوہ ہے کہ پاکستان ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو افغانوں کو تو خود بارڈر پر ویزا اور پاسپورٹ کے سسٹم کو مضبوط کرنا چاہیے اور اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ مل کر سرحدی قوانین کو نافذ کرنا چاہیے، پاکستان کے اور بھی پڑوسی ہیں۔ چین، بھارت او ایران ہے جب کہ جنوب میں سمندر ہے۔ چین کے ساتھ تو پاکستان کی بے مثال دوستی ہے۔
کیا ان ملکوں سے آنے والے ویزے کے بغیر آتے ہیں؟ کیا ایران کا بارڈر افغان بارڈرکی طرح شاہراہِ عام بنا ہوا ہے؟ طالبان حکومت اگر افغانستان کی نمایندہ اور جائز حکومت ہے تو خود طالبان حکومت کو چاہیے تھا کہ پاکستان میں پناہ لینے والے افغانوں کو واپس بلاتے اور کہتے کہ ملک آزاد ہوگیا ہے، آؤ! ہم سب مل کر ملک کی ترقی کے لیے مل کرکام کریں۔ افغانستان کے ساتھ ہمارا مذہبی، ثقافتی اور لسانی رشتہ صدیوں سے ہے۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرنا ہوگا اور سرحدوں پر بین الاقوامی قوانین کا نفاذ کرنا ہوگا۔
افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کو اپنی عالمی ذمے داریوں اور وعدوں کو پورا کرنا چاہیے ۔دہشت گرد تنظیمیں اور گروہ کسی ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے۔ان کا مائنڈ سیٹ جرائم پیشہ مافیا ڈانز کی طرح ہوتا ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کے لیے بھی یقیناً بہت سے مسائل ہوں گے ‘لیکن اس کے باوجود ٹی ٹی پی کے حوالے سے شاید طالبان حکومت کے لیے کوئی مسائل نہیں ہوں گے۔ طالبان حکومت کو اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے اس قسم کے دہشت گرد گروہوں کی سہولت کاری کرنے کے بجائے ان کی بیغ کنی کرنی چاہیے۔اس حوالے سے اگر طالبان حکومت کسی خدشے یا کمزوری کا شکار ہے تو اسے پاکستان کے ساتھ شیئر کرنا چاہیے۔
[ad_2]
Source link