[ad_1]
اسلام آباد: سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) فیض حمید کے کورٹ مارشل نے ایک نئی تاریخ رقم کی، ماضی میں بھی اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
1997 میں نیوی کے سربراہ ایڈمرل منصورالحق کی غیر ملک سے دفاعی سامان کی خریداری میں ککس بیک پر گرفتاری ہوئی اور نیب کے ساتھ پلی بارگین کے بعد 17 اپریل2001 کو انہیں رہا کردیا گیا۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کا کورٹ مارشل ہوا، انہوں نے ایک کتاب لکھی تھی جس کے بعد ضابطہ فوجداری کی خلاف ورزی پر عمر قید کی سزا ہوئی جو بعد ازاں تبدیل کر دی گئی۔
22 فروری 2019 کو دو سینیئر افسران کا کورٹ مارشل ہوا۔ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو جاسوسی کے الزام میں 3 مئی 2019 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور تمام مراعات اور پنشن اور جائیداد ضبط کر لی گئی۔
بریگیڈیئر رضوان کا غیر ملکی اداروں کے ساتھ روابط پر کورٹ مارشل ہوا اور14 سال کی سزا سنائی گئی۔ میجر جنرل ظہیر الاسلام کے خلاف سیاچن میں ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی کی گئی اور انہیں 30 جولائی 1995 کو فوج سے برطرف کر کے تمام مراعات واپس لے لی گئیں۔
آرمی انجینیئر کرنل شاہد کا شمسی ایئربیس پر جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل ہوا اور انہیں فوج سے نکال دیا گیا۔ میجر جنرل تجمل حسین کا کورٹ مارشل ہوا اور انہیں 1995 میں 14 سال کی سزا ہوئی۔ بغاوت کیس میں بریگیڈیر مستنصر بلا اور اور چار افسران کا کورٹ مارشل ہوا، انہیں 14 سال کی سزا ہوئی اور تمام مراعات اور پنشن ضبط کر لی گئی۔
حال ہی میں سابق کور کمانڈر ایمن بلال پر سیاسی الزامات لگے لیکن ان کو جبری ریٹائرڈ کردیا گیا، اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی ہوئی۔ اس کے بعد حال ہی میں فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے الزام میں سابق لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین، میجر( ر) عادل راجہ اور حیدر مہدی کا کورٹ مارشل ہوا اور انہیں 14 سال کی سزا سنائی گئی، اور پاکستان میں ان کی تمام جائیداد ضبط کرلی گئی۔
اسی طرح 9 مئی کے واقعے میں غفلت برتنے پر تقریباً 15 افسران کے خلاف کارروائی ہوئی جس میں سابق کور کمانڈر لاہور، دو میجر جنرل، پانچ بریگیڈیئر اور کرنل ، میجر بھی شامل تھے۔
فوج ایک ڈسپلنڈ اور منظم ادارہ ہے اور ہمیشہ اپنے اندر سخت احتساب کے میکنزم کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس کی مثال ماضی میں ہمیں بارہا ملتی رہی ہے ۔ ماضی قریب میں 9 مئی کے واقعات کے بعد بھی پوری قوم نے دیکھا کے کیسے فوج کا یہ اِحتساب کا کڑا عمل حرکت میں آیا اور انتہائی سرعت کے ساتھ چند ہی دنوں میں متعلقہ اور ذمہ دار لوگوں کو سزائیں سنا دی گئیں۔
اِسی طرح پہلے بھی کئی سینئر افسران کو آرمی رولز اور کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جا چکی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف قانونی چارہ جوئی اِسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا بلکہ فوج اپنے کڑے احتسابی عمل کو کئی بار عملی جامہ پہلے بھی پہنا چکی ہے۔
فوج نے ایک بار پھر واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کے کوئی بھی شخص چاہے وہ کتنے ہی اونچے عہدے پر کیوں نا ہو، قانون سے بالا تر نہیں اور دوسری بات یہ کے پاک فوج کا احتسابی عمل بہت شفاف اور کڑا ہے جو فوری حرکت میں آ کر حقائق اور ثبوتوں کی روشنی میں، معاملات کو قانون کے مطابق سختی کے ساتھ نپٹاتا ہے۔
اِس سلسلے میں ڈی جی آئی ایس پی آر 7 مئی کی پریس کانفرنس میں فوج کے اس کڑے احتسابی عمل کو واضح طور پر بیان کر چکے ہیں۔
[ad_2]
Source link