Site icon اردو

بھارت میں مذہبی منافرت کی آگ دہکائی جارہی ہے



بھارت میں مذہبی منافرت کی آگ دہکائی جارہی ہے

  بھارت میں ان دنوں نفرت کے پجاری جگہ جگہ مندروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ سنبھل ابھی سنبھل نہیں پایا اور معاملہ بدایوں، دہلی ہوتا ہوا سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچ گیا۔ عالمی سطح پر معروف دنیا بھر کے کروڑوں عقیدت مندوں کی عقیدت کا مرکز بارگاہِ خواجہ غریب نواز اب مسلم دشمن بھگوا ٹولہ کے نشانہ پر ہے۔ مسلمان اپنے مذہبی مقامات سے کسی صورت دستبردار نہیں ہو سکتے مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ مذموم سلسلہ کس لیے شروع کیا گیا اور اس کا ذمے دار کون ہے؟
       ابھی حال ہی میں مسلم مخالف راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ہر مسجد اور مسلم مقدس مقامات کے نیچے مندر تلاش نہیں کرنے چاہئیں۔بھاگوت کے واضح موقف کے باوجود بی جے پی قیادت والی ریاستوں میں اسی بہانے مذہبی منافرت اور قتل و خون کی آگ دہکائی جارہی ہے۔ کیا زعفرانی تنظیمیں بھاگوت کی اس تجویز کو تسلیم نہیں کر رہی ہیں یا پھر بھاگوت کے قول و فعل میں تضاد ہے؟ ملک کی متعدد ریاستوں میں مسجد مخالف مہم کے لیے جہاں فرقہ پرست و مسلم دشمن تنظیمیں ذمہ دار ہیں جو گمراہ کن اور جھوٹے دعوے کرتے ہوئے مذہبی منافرت کی آگ بھڑکا رہی ہیں وہیں اس سے کہیں زیادہ سابق چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ بھی ہیں جنہوں نے تحفظ عبادتگاہ قانون 1991ء کو نظر انداز کرتے ہوئے گیان واپی مسجد کے خلاف دائر درخواست کو سماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے فرقہ پرستوں کو قانونی شکنجہ سے آزاد کر دیا۔1991 ایکٹ اسی لیے بنایا گیا تھا کہ بابری مسجد کے بعد کسی اور مسجد، درگاہ، خانقاہ یا کسی عبادت گاہ کو کوئی چیلنج نہ کر سکے۔ جب گیان واپی مسجد کا مسئلہ سپریم کورٹ پہنچا تو اس وقت کے چیف جسٹس چندر چاہتے تو1991ء ایکٹ کے تحت اس عرضی کو مسترد کر سکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے عرضی سماعت کے لیے قبول کرلی۔ یہیں سے سنگھ و بھاجپا لیڈران اور مسلم دشمن طاقتوں کے حوصلے بلند ہوئے اور پورے ملک میں زعفرانی ٹولہ کو شر انگیزی، مسلم دشمنی اور اشتعال انگیزی کا موقع مل گیا جس کے ذریعے فرقہ پرستی و مذہبی عصبیت کا زہر بڑی تیزی سے پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ رجحان ملک کے لیے خطرناک ہے لیکن عواقب و نتائج کی پرواہ کیے بغیر ملک کو اس راہ پر گامزن کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جہاں سے واپسی آسان نہیں ہوگی۔ فرقہ پرستی و مذہبی عصبیت کا زہر کہاں تک سرایت کر چکا ہے اس کا اندازہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے- وہ کہتے ہیں کہ: “یہ ملک اکثریت کی خواہش کے مطابق چلے گا”۔ انہیں یہ کہتے ہوئے کوئی عار تک محسوس نہیں ہوئی۔ اگر آئین کے محافظ اور عدل و انصاف کی فراہمی پر مامور اعلیٰ عدالت کا جج بھی اصول وضوابط اور ضابطہ اخلاق کو نظر انداز کرتے ہوئے برسر عام اپنی تنگ نظری و فرقہ پرستی کو بڑی بے شرمی و ڈھٹائی کے ساتھ درست قرار دینے کی کوشش کرے تو اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کے اقلیتی، مظلوم اور انصاف سے محروم طبقات اس امید پر عدلیہ کے دروازے پر دستک دیتے ہیں کہ انہیں یہاں سے انصاف ملے گا، عدلیہ ان کے جمہوری، آئینی اور مذہبی حقوق کا تحفظ کرے گی۔ عدلیہ پر عوامی اعتماد ہمیشہ برقرار رہا لیکن حالیہ کچھ عرصہ کے دوران نظام عدل بھی سنگھ پریوار کی چیرہ دستی کا شکار ہو رہا ہے۔ ملک کی کئی عدالتوں میں انصاف کی فراہمی پر مامور ججس علی الاعلان مذہبی عصبیت کا بدترین مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ابھی کچھ ماہ قبل کرناٹک ہائی کورٹ کے جج نے بنگلور کے مسلم اکثریت علاقہ کو پاکستانی علاقہ قرار دیتے ہوئے مسلمان کو معتوب و مطعون کرنے کی کوشش کی تھی۔ جج کے اس ناقابل تبصرہ پر سپریم کورٹ نے جب سخت موقف اختیار کیا تو جج نے معذرت کرلی۔ اب الہ آباد ہائی کورٹ کے جج نے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی اور بدزبانی کی۔ یہ قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو مسلمانوں سے کس قدر بغض و عناد رکھتے ہیں یہ ان کی بازاری زبان اور لب ولہجہ سے ثابت ہو جاتا ہے۔انہوں نے فرقہ پرست غنڈوں اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل سماج دشمن عناصر کی طرح مسلمانوں کو ملا کہتے ہوئے دھمکی تک دے ڈالی کہ ہندوؤں کے عدم تشدد اور مہربانی کو بزدلی یا کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی سخت گیر و مسلم دشمن تنظیم وشو ہندو پریشد کا قانونی سیل وقتاً فوقتاً ایسی تقاریب منعقد کر رہا ہے۔ ان تقاریب میں قانونی ماہرین کو مدعو کر کے مختلف موضوعات پر ان کی رائے اور نظریہ سے نہ صرف واقفیت حاصل کی جا رہی ہے بلکہ اسے عام کرتے ہوئے ایک مخصوص ایجنڈہ پر عمل درآمد کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ وی ایچ پی کی ایسی ہی ایک تقریب میں جسٹس شیکھر کمار یادو نے ایک حساس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ جسٹس یادو نے یکساں سول کوڈ ایک آئینی ضرورت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے اسے ملک کے لئے ضروری قرار دیا۔ موضوع کے انتخاب سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ ان کا مقصد مسلمانوں کو ہی نشانہ بنانا تھا۔ یکساں سول کوڈ کا شوشہ صرف اس لیے چھوڑا جاتا ہے کہ مسلمان اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ مسلمانان ہند اس کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ اس ملک کا فرقہ پرست مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کرنا چاہتا ہے۔ جسٹس یادو نے مسلمانوں کے لئے توہین آمیز اصطلاح استعمال کرتے ہوئے انہیں ملک کے لیے نقصاندہ قرار دیا۔ مسلمان اس مسلم دشمن جج سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ بتائے کہ کس مسلمان نے کب اور کیسے ملک کو نقصان پہنچایا؟ کٹر فرقہ پرست و مسلم دشمن عناصر کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکتے کہ مسلمان ملک دشمن ہیں۔
     سپریم کورٹ نے بابری مسجد کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے مسلمانوں کو واضح طور پر یہ پیغام پہنچایا تھا کہ اب ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی آئین و قانون کے بجائے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی اور یہ بھی ملحوظ رکھا جائے گا کہ صرف اکثریتی طبقہ کی آستھا کے لیے ہی آئین و دستور اور عدل و انصاف کا خون کیا جائے گا۔ کسی اقلیتی طبقہ کے مذہبی عقیدہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ گمان غالب ہے کہ سپریم کورٹ کے اسی فیصلہ کے بعد جسٹس شیکھر کمار یادو نے جسارت کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ ہندوستان ہے اور یہاں کی اکثریت کی مرضی کے مطابق ہی یہ ملک چلے گا۔ جسٹس شیکھر یا دو نے یکساں سول کوڈ کے بہانے مسلمانوں کے شرعی معاملات کو بھی ہدف تنقید بنایا، طلاق ثلاثہ، تعداد ازدواج، حلالہ اور مطلقہ کو نان نفقہ جیسے خالص شرعی معاملات کے بہانے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی۔جسٹس شیکھر کمار نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ ملک ایک دن یکساں سول کوڈ نافذ کرے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایسی اشتعال انگیز زہر افشانی کی مخالفت و مذمت ہی کی جائے گی۔
       سوال یہ ہے کہ جب ججس کے لیے ایک ضابطہ اخلاق ہے، عوامی تقاریب میں شرکت اور بہت زیادہ عوامی میل جول پر بھی کسی قدر پابندی ہے۔ خدمات کی انجام دہی تک انہیں کچھ اصول و ضوابط پر مکمل عمل کرنا ہے تو پھر جسٹس شیکھر کمار یادو ایک سخت گیر مسلم دشمن تنظیم کے اجلاس میں کیسے شریک ہوئے؟ یہ ایک آئینی عہدہ ہے اور جو اس عہدہ پر رہتے ہوئے آئین و دستور کو ٹھوکر پر رکھتا ہے اس کے خلاف سپریم کورٹ کو سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ از خود نوٹس لے تاکہ ملک کے اقلیتی طبقات کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہوسکے۔ اگر بھارت کی عدالت کے جج صاحبان چاہیں تو ملک میں فرقہ پرست عناصر کی ہمت نہیں کہ وہ کسی مسجد کے نیچے مندر ہونے کا دعویٰ بھی کرسکیں۔یہی وجہ ہے کہ اب دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد کو بھی متنازع بنانے کی کوشش شروع ہوگئی۔ زی نیوز کی خبر کے مطابق ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نے آرکیالوجی کل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل کو خط لکھ کر دہلی کی تاریخی جامع مسجد کا سروے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جودھ پور اور ادےپور کے مندروں سے ٹوٹی ہوئی مورتیوں کی باقیات مسجد کی سیڑھیوں میں نصب کئے گئے ہیں۔ یہ معلومات اورنگزیب کی درباری تاریخ سے متعلق کتاب “مآثر عالمگیری” میں درج ہے جسے ساقی مشتاق خان نے تحریر کیا تھا۔ وشنو گپتا نے بتایا کہ مآثر عالمگیری میں لکھا ہے کہ 24-25 مئی 1689 کو جودھپور سے واپس آنے والے خان جہاں بہادر نے بہت سے مندروں کو توڑ دیا تھا۔ ان مندروں کے بت بیل گاڑیوں میں لاد کر دہلی بھیجے گئے جس سے اورنگزیب بہت خوش ہوا۔ گپتا کا کہنا ہے کہ ان مجسموں کے باقیات کو جامع مسجد کی سیڑھیوں میں استعمال کیا گیا تھا جس کو ثابت کرنے کے لیے اسے ایس آئی کا سروے ضروری ہے۔ گپتا کا کہنا ہے کہ ان باقیات کو ایک سروے کے ذریعے دریافت کیا جائے اور انہیں مندروں میں دوبارہ نصب کیا جائے۔اس کے ساتھ یہ سروے بقول ہندو سینا دنیا کے سامنے مغل حکمران اورنگزیب کے ظلم اور مندروں کی تباہی کی حقیقت کو سامنے لائے گا۔ واضح رہے کہ یہ جامع مسجد شاہجہاں نے بنوائی تھی نہ کہ اورنگزیب نے۔
      2014 ء میں جیسے ہی بی جے پی مرکز اور مختلف ریاستوں میں برسر اقتدار آئی موسم تبدیل ہونے لگا تھا، تشویشناک بات یہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا اقلیتی طبقہ مسلمان بدلتی رت اور ہواؤں کا اندازہ نہیں لگا سکا۔ مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی قیادت نے بھی آئین و عدلیہ کے احترام کا ایسا سبق پڑھایا کہ بابری مسجد معاملہ میں انصاف کے نام پر نا انصافی کو بھی مسلمانوں نے بسر و چشم قبول کر لیا۔ اگر اسی وقت مسلمان اپنا موقف واضح کر دیتے کہ صرف انصاف پر مبنی فیصلہ ہی قبول کیا جائے گا ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی تو عدالت بھی آنکھوں پر پٹی باندھ کر فیصلہ نہ کرتی۔ موجودہ منظر نامہ میں اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے کچھ سبق سیکھا جائے۔فرقہ پرستوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لئے مسلمانوں کو بھی ٹھوس حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے عملی اقدامات کا آغاز کرنا ہوگا۔ مسلم مذہبی تنظیموں کے ساتھ ساتھ مسلم سیاسی قیادت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں، صورتحال کا باریکی سے جائزہ لیں، فرقہ پرستوں کے عزائم ناکام بنانے کے لئے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے اس پر مشاورت کریں اور متحدہ و متفقہ فیصلہ کر کے اس شر انگیزی اور مسلم دشمنی کے سد باب کے لیے فوری فعال و متحرک ہو جائیں۔



Source link

Exit mobile version