Site icon اردو

بلیماران میں مقابلہ سخت ہونے کے آثار، ہارون یوسف کو سیاسی لہر بدلنے کا یقین


اپنے حریف کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ہارون یوسف نے کہا کہ ’’آخر عمران نے اپنے حلقہ میں کیا کیا؟ وہ یہاں کے لینڈ مافیا کا حصہ ہیں۔ کسی بھی تعمیراتی کام کے لیے تمام بلڈرس کو اسے کچھ فیصد دینا ہوتا ہے۔‘‘

" class="qt-image"/>

ہارون یوسف (بیٹھے ہوئے دائیں سے دوسرے) اور دیگر کانگریس لیڈران، تصویر ویپن/قومی آواز

"/>

ہارون یوسف (بیٹھے ہوئے دائیں سے دوسرے) اور دیگر کانگریس لیڈران، تصویر ویپن/قومی آواز

دہلی اسمبلی انتخاب کے لیے تاریخوں کا اعلان فی الحال نہیں ہوا ہے، لیکن آئندہ سال کے شروع میں اس تعلق سے کبھی بھی خبر سامنے آ سکتی ہے۔ اس درمیان انتخابات کو لے کر کانگریس کی سرگرمیاں بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ بلیماران اسمبلی حلقہ سے امیدوار بنائے گئے ہارون یوسف کے فراش خانہ واقع دفتر میں 18 دسمبر کو ایک میٹنگ طے تھی۔ دفتر کے پاس بڑی تعداد میں لوگ گھومتے نظر آ رہے تھے۔ اس ہجوم میں بیشتر وہ لوگ نظر آئے جو ہارون یوسف کے پرانے حامی اور ضعیف تھے۔ یہ کوئی عام اجتماع نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ایسے امیدوار کی سیاسی اہمیت کو ظاہر کرنے والا اجتماع تھا جس نے 2 دہائیوں سے اس اسمبلی حلقہ کی نمائندگی کی تھی۔

کانگریس نے دہلی کی 70 اسمبلی سیٹوں میں سے جن 21 اسمبلی سیٹوں کے لیے امیدواروں کا اعلان گزشتہ ہفتہ اپنی پہلی فہرست میں کیا ہے، ان میں ہارون یوسف بھی شامل ہیں۔ سیاسی منظرنامہ میں وہ کوئی اجنبی نہیں ہیں۔ پہلی بار انھوں نے 1993 میں بلیماران اسمبلی حلقہ سے انتخاب جیتنے کے بعد 22 سالوں تک عوام کی خدمت کی۔ انھوں نے 1998، 2003، 2008 اور 2013 میں ہوئے دہلی اسمبلی انتخاب میں بلیماران اسمبلی حلقہ سے کامیابی کا پرچم لہرایا۔ ان کی جیت کا یہ سلسلہ 2015 دہلی اسمبلی انتخاب میں ختم ہوا جب عآپ امیدوار عمران حسین نے انھیں تقریباً 44 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔

شیلا دیکشت کی قیادت والی دہلی حکومت کے دوران ہارون یوسف فوڈ اینڈ سول سپلائیز اور محکمہ صنعت کے وزیر کے طور پر اہم عہدوں پر فائز ہوئے، لیکن 2015 کی شکست نے ایک داغ چھوڑ دیا۔ تاہم، یوسف اب اپنے اس یقین پر قائم ہیں کہ اس مرتبہ سیاسی لہر بدل جائے گی۔ انھوں نے اپنے یقین کو پختہ ظاہر کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’عآپ حکومت نے حقیقی معنوں میں آخر کیا ہی کیا ہے؟‘‘ انھوں نے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑاتے ہوئے کہا کہ ’’اروند کیجریوال کے وعدے خالی الفاظ کے سوا کچھ نہیں نظر آ رہے۔ انھوں نے دہلی کو لندن یا پیرس جیسا بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن جو حالات ہیں وہ ہر کوئی دیکھ رہا ہے۔ دہلی کی حالت تو اس وقت کچھ دیہاتوں سے بھی بدتر ہے۔‘‘ ہارون یوسف اتنے پر ہی خاموش نہیں ہوئے۔ اپنے حریف کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ’’عمران نے اپنے حلقہ کی عوام کے لیے کیا کیا؟ وہ یہاں کے لینڈ مافیا کا حصہ ہیں۔ علاقہ میں کسی بھی تعمیراتی کام کے لیے تمام بلڈرس کو اسے کچھ فیصد دینا ہوتا ہے۔‘‘ کانگریس لیڈر جب یہ دعویٰ کر رہے تھے تو ان کے الفاظ میں ایک مضبوط یقین دکھائی دے رہا تھا۔

ہارون یوسف کے مطابق حلقہ کے لوگوں کو پریشان کرنے والے مسائل سیاست سے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ انھوں نے اپنا سر ایک خاص انداز میں ہلاتے ہوئے کہا کہ ’’پینے کا پانی ایک ایک بڑا موضوع فکر ہے۔ ٹینکر مافیا کی وجہ سے لوگ اس موضوع پر بات نہیں کرتے۔ جل بورڈ کا پانی پینے کے قابل نہیں ہے، لیکن ان کی سیلف فنانسنگ اسکیم لوگوں کو بوتل کا پانی خریدنے پر مجبور کرتی ہے۔‘‘ ہارون یوسف نے راجدھانی دہلی میں اسکولوں کی حالت زار پر بھی اپنی فکر ظاہر کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’عآپ 10 سالوں سے برسراقتدار ہے، اور انہوں نے دہلی کے 29 فیصد سے بھی کم اسکولوں پر کام کیا ہے۔ اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں آتا تو پرانی دہلی، جنوبی دہلی، مشرقی دہلی اور اوکھلا کے اسکولوں کا دورہ کریں۔ وہاں کچھ بھی کام نہیں ہوا۔‘‘ اس بیان کے ساتھ کانگریس لیڈر کی مایوسی بھی واضح نظر آ رہی تھی۔

ہارون یوسف نے بجلی سے متعلق بھی اپنی رائے ظاہر کی۔ انھوں نے اس معاملے میں عآپ پر عوام کو دھوکہ دینے کا الزام عائد کیا۔ انھوں نے اپنی دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’بجلی کے بلوں کو کم کرنے سے متعلق ان کا دعویٰ ایک گھوٹالہ ہے۔ دہلی کی بجلی ملک میں سب سے مہنگی ہے۔ ڈسکام کی بنیاد پر بجلی کی خریداری کے ایڈجسٹمنٹ چارج میں 6 سے 8 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، اور اب پنشن سرچارج 7 فیصد زیادہ ہے۔ کانگریس 100 یونٹ بجلی مفت دیتی تھی، اور تب یہ قیمت 2 روپے فی یونٹ تھی۔ اب یہ 200 یونٹ تک کے لیے 3 روپے ہے، اور اگر بجلی خرچ 1200 یونٹ سے زیادہ ہو جائے تو پھر یہ 8 روپے فی یونٹ ہو جاتی ہے۔ یہ سب بہت بڑا اضافہ ہے۔‘‘

یہ تو بجلی کی قیمت سے متعلق وضاحت تھی، ہارون یوسف نے دہلی میں بجلی کی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی۔ اس دور کو یاد کیا جب بی جے پی برسراقتدار تھی۔ وہ پرانا وقت یاد دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’1993 میں ہفتہ بھر میں 70 سے 100 گھنٹے بجلی کی کٹوتی ہوتی تھی۔ بازاروں میں جگہ جگہ جنریٹرز نظر آتے تھے اور گھروں میں لوگ انورٹر پر انحصار کرتے تھے۔ 2004 میں حالات بدل گئے جس کا انکشاف ایک سروے میں ہوا۔ سروے سے پتہ چلا کہ 2004 میں جنریٹر کی فروخت 94 فیصد تک کم ہو گئی۔ وجہ یہ تھی کہ بجلی کی مسلسل فراہمی ہونے لگی تھی۔‘‘

ہارون یوسف نے اروند کیجریوال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ دہلی کی تاریخ کو نہیں سمجھتے۔ ہماری راجدھانی میں ڈرامے کے دو اسکول ہیں۔ ایک نیشنل اسکول آف ڈرامہ، اور دوسرا کیجریوال اسکول آف ڈرامہ۔‘‘ جب انھوں نے یہ بات کہی تو ان کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تیر رہی تھی۔

ہارون یوسف نے بہت صاف گوئی کے ساتھ کانگریس کی کچھ خامیوں کا بھی تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم نے اپنے دور میں تشہیر کے معاملے میں زیادہ کام نہیں کیا۔ ہمارا پبلسٹی بجٹ صرف 80 کروڑ روپے تھا، جب کہ عآپ کا 500 کروڑ روپے ہے۔ وہ کام کرنے کی جگہ تشہیر پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے عآپ کے ادھورے وعدوں کی نشاندہی بھی کی۔ انھوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے لڑکیوں کو 1,000 روپے دینے کا وعدہ کیا تھا اور 3 سال بعد بھی یہ وعدہ پورا نہیں ہوا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ ’’اس دوران ہماچل، تلنگانہ اور کرناٹک میں کانگریس کی حکومتوں نے اپنے منشور کے وعدوں کا خیال رکھا اور اسے پورا کرنے کے لیے پیش رفت کی۔‘‘ یوسف خاص طور پر عآپ کے تازہ وعدوں کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’کیجریوال نے دہلی میں خواتین کے لیے 2,100 روپے دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ان کی کابینہ نے گزشتہ ہفتے صرف 1,000 روپے پاس کیے ہیں۔ یہ کجریوال کا دوغلاپن ہے۔ یہ اعلان مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کے انتخابات کے بعد سامنے آیا، جہاں ’لاڈلی یوجنا‘ کا استعمال ’جیت کے عنصر‘ کے طور پر کیا گیا۔‘‘

بہرحال، ہارون یوسف میں جو اعتماد دیکھنے کو مل رہا ہے وہ کچھ حد تک 8 نومبر سے 6 دسمبر تک منعقد ہونے والی ’دہلی نیائے یاترا‘ کی کامیابی سے پیدا ہوا ہے۔ اس یاترا نے پارٹی کے کارکنوں میں پھر سے جوش پیدا کیا اور ظاہر کیا کہ کانگریس اب بھی بھیڑ کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہے۔ ہارون یوسف کہتے ہیں کہ ’’اگر کانگریس کے تمام کارکنان اکٹھے ہو جائیں تو عآپ کو شکست دینا قطعی مشکل نہیں ہوگا۔‘‘

جہاں تک اس مرتبہ بلیماران اسمبلی حلقہ کے باشندوں کا سوال ہے، تو وہ بھی سخت ٹکر کی امید کر رہے ہیں۔ مقامی لوگ بہت دلچسپی کے ساتھ سیاسی ڈراموں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ایک مقامی رہائشی اعجاز نور نے کہا کہ ’’یہ 10 سالوں میں پہلی سخت لڑائی ہے جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ ’’ہارون یوسف کے پاس ایک موقع ہے۔ اگر وہ سخت محنت کریں تو کامیابی ملے گی۔ انھوں نے پچھلے 3 ماہ اس علاقہ میں گزارے ہیں، اور پرانے لوگ ان کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن جیت کے لیے ہارون یوسف کو نوجوان طبقہ کو اپنی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ انھوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’یوسف کو یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ وہ لوگوں کے لیے ہر وقت موجود ہیں۔‘‘

سچ تو یہی ہے کہ بلیماران میں لڑائی ایک قریبی مقابلہ کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ کانگریس اور عآپ امیدوار تیزی سے ان ووٹرس کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں جو فی الحال کشمکش والی حالت میں ہیں۔ ہارون یوسف کے لیے ایک بڑی اچھی بات یہ ہے کہ بدعنوانی کے الزامات ان پر اس طرح نہیں لگے ہیں، جس طرح کہ عمران حسین پر ہیں۔ یعنی کانگریس امیدوار کی شبیہ اس معاملے میں داغدار نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔






Source link

Share this:

Exit mobile version