کابل کے باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ دواؤں کی اونچی قیمتوں سے مایوس ہیں، لوگوں نے طالبان کے محکمہ صحت سے سبھی فارمیسیوں میں دواؤں کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سنگین قدم اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
علامتی تصویر / سوشل میڈیا
علامتی تصویر / سوشل میڈیا
علامتی تصویر / سوشل میڈیا
علامتی تصویر / سوشل میڈیا
افغانستان میں اس وقت کئی طرح کی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن عوام ان بیماریوں کے ساتھ ساتھ دواؤں کی بے تحاشہ بڑھی ہوئی قیمت سے پریشان ہے۔ دراصل سردیوں کا موسم کم درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ کئی طرح کی بیماریاں لے کر بھی آتا ہے۔ رواں سال افغانستان کی راجدھانی کابل میں آلودہ ہوا نے بھی کافی پریشانیاں پیدا کر دی ہیں۔ سردی اور خراب ہوا نے مل کر لوگوں کو کئی طرح کی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ اب متوسط اور غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے مریض اس بات سے پریشان ہیں کہ مہنگی دوائیں آخری خریدیں کس طرح۔
کابل کے باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ الگ الگ بیماریوں میں اضافہ اور راجدھانی میں دواؤں کی اونچی قیمتوں سے انتہائی مایوس ہیں۔ لوگوں نے طالبان کی وزارت صحت سے سبھی فارمیسیوں میں دواؤں کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سنگین قدم اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں اب تک کوئی بھی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
افغانستانی نیوز آؤٹ لیٹ ’ٹولو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے ایک مریض کے والد شیراللہ (جو علاج کے لیے پروان سے کابل آئے تھے) نے راجدھانی کے میڈیکل اسٹور میں مہنگی دواؤں کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک فارمیسی میں دوا کی قیمت الگ ہے، دوسری فارمیسی میں یہ الگ ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ دواؤں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’پرائیویٹ اسپتالوں میں ڈاکٹرس اپنی فیس لیتے ہیں، پھر لیب کے پیسے الگ سے دینے ہوتے ہیں اور دوا کی قیمت بھی اتنی زیادہ ہے کہ پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔‘‘ ایک کابل باشندہ نے تو ناراض ہوتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’وہ دوا کا کاروبار کر رہے ہیں۔‘‘
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ افغانستان میں اس وقت سردی، کھانسی اور بخار جیسے امراض تیزی سے سامنے آ رہے ہیں۔ اس بارے میں جب کابل میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر صادق ظہیرزئی سے بات کی گئی تو انھوں نے افغان میڈیا کو بتایا کہ 80 فیصد معاملے سردی، بخار اور سینے کے سنگین انفیکشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ مریضوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہمارے پاس ان کے لیے بستر بھی ناکافی ہو گئے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔