Site icon اردو

معذور اشخاص اپنے فن و دستکاری سے جیت رہے لوگوں کا دل 


معذور شخص نریش بھائی مکوانہ نے بتایا کہ ان کی اہلیہ نے ہمیشہ زندگی کے ہر موڑ پر ان کا ساتھ دیا ہے، 2021 میں ہم نے صرف 2000 روپے سے کاروبار شروع کیا اور آج ہمارا کاروبار 4 لاکھ روپے تک پہنچ گیا ہے۔

" class="qt-image"/>

دِوّیہ کلا میلہ

"/>

دِوّیہ کلا میلہ

نئی دہلی: وزارت برائے سماجی انصاف کی جانب سے معذور افراد کو باختیار بنانے کے لیے بائیسویں ’دِوّیہ کلا میلہ‘ کا انعقاد ہوا ہے جو آب و تاب سے جاری ہے۔ یہ میلہ نیتاجی سبھاش چندربوس پرتیما کے نزدیک کرتویہ پتھ (انڈیا گیٹ، نئی دہلی) پر سجایا گیا ہے جہاں لوگوں کی زبردست بھیڑ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دوّیہ کلا میلہ کا بنیادی مقصد معذور اشخاص کو ایک پلیٹ فارم دینا ہے تاکہ وہ اپنی دستکاری اور مصنوعات کو فروغ دے کر معاشی طور پر مضبوط ہو سکیں۔ یہ میلہ 12 دسمبر سے 22 دسمبر 2024 تک لگا ہوا ہے جس میں صبح 11 بجے سے رات 9 بجے تک لوگ شرکت کر سکتے ہیں۔ تاہم معذور آرٹسٹ کے فن کی مہارت کا لطف لینے کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ کی بنائی ہوئی مصنوعات بھی خرید سکتے ہیں۔

دِوّیہ کلا میلہ میں آپ کو معذور اشخاص کی ایسی ایسی کہانیاں اور مثالیں دیکھنے کو ملیں گی جو زندگی میں مایوس لوگوں میں نئی روح پھونکنے کا کام کر رہی ہیں۔ معذور ہونے کے باوجود وہ مایوس بالکل نہیں ہیں بلکہ اپنے فن و ہنر سے لوگوں کا دل جیت رہے ہیں اور لوگوں کو حوصلہ دے رہے ہیں۔

میلہ میں آئے کچھ معذور اشخاص سے نمائندہ نے بات چیت کی اور ان کے ہنر کے بارے میں جانا۔ گجرات کے شہر سورت کے رہنے والے نریش بھائی مکوانہ، جو پہلے ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان چلا کر روزی کماتے تھے، نے خود کو مالی طور پر مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا تو کامیابی نے ان کے قدم چوم لیے۔ نریش اس بات کی تازہ مثال ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی بھی طرح کا کام پوری محنت و لگن سے شروع کرتا ہے تو اس کو کامیابی ضرور ملتی ہے۔ نریش بھائی مکوانہ اپنی اہلیہ نیلم نریش کے ساتھ 22ویں دوّیہ کلا میلہ میں اسٹال لگائے ہوئے ہیں جہاں معذور اشخاص کے ہاتھوں سے تیار کردہ اشیاء اور زیورات لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔

نریش بھائی مکوانہ اور ان کی اہلیہ

" class="qt-image"/>

نریش بھائی مکوانہ اور ان کی اہلیہ

"/>

نریش بھائی مکوانہ اور ان کی اہلیہ

نریش بھائی مکوانہ نے بتایا کہ ان کی اہلیہ نے ہمیشہ زندگی کے ہر موڑ پر ان کا ساتھ دیا ہے۔ وہ کہتےہیں کہ ’’سال 2021 میں ہم نے صرف 2000 روپے سے کاروبار شروع کیا اور آج ہمارا کاروبار 4 لاکھ روپے تک پہنچ گیا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی دنوں میں ہم نے براس میٹل اور جرمن سلور سے بریسلیٹ بنائے اور پھر 2022 میں ممبئی میں دویہ کلا میلہ کا انعقاد کیا گیا جہاں ہم نے اپنے تیار کردہ بریسلٹس فروخت کی۔ وہاں ہمیں بہت اچھا رسپانس دیکھنے کو ملا۔ ہم اپنے ذہن سے سوچ کر لاکیٹس، بریسلیٹ، بالیاں، انگوٹھیاں، جھمکے وغیرہ ڈیزائن کرتے ہیں۔ تاہم ہماری کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم جو زیورات ہاتھوں سے تیار کرتے ہیں وہ کسی کی کاپی نہیں ہوتی، اس وجہ سے بھی لوگ ہمارے زیورات پسند کرتے ہیں۔ نریش بھائی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس 40 سے زیادہ ڈیزائن کے زیورات ہیں اور دہلی کے لوگ ان کے زیورات کو بہت پسند کر رہے ہیں۔ دہلی میں رہنے والے ہمارے اسٹال نمبر 6 پر آ سکتے ہیں۔

نریش بھائی مکوانہ اور ان کی اہلیہ

" class="qt-image"/>

نریش بھائی مکوانہ اور ان کی اہلیہ

"/>

نریش بھائی مکوانہ اور ان کی اہلیہ

میلہ میں موجود اپنی پینٹنگز سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی کاجل سنگھ سندھی یوں تو بولنے سے قاصر ہیں، لیکن ان کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی پینٹنگز باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔ گجرات کے احمد آباد سے تعلق رکھنے والی کاجل نے بی کام تک تعلیم حاصل کی ہے اور انہیں پینٹنگ کا شوق بچپن سے ہی ہے۔ وہ شیشے پر پینٹنگ، وال پینٹنگ، لکڑی کے تختوں پر پینٹنگ، اسکیچنگ اور مہندی ڈیزائن میں مہارت رکھتی ہیں۔

کاجل سنگھ سندھی

" class="qt-image"/>

کاجل سنگھ سندھی

"/>

کاجل سنگھ سندھی

کاجل نے نہ صرف اپنی پینٹنگز کے ذریعے اپنے آپ کو خود کفیل بنایا ہے بلکہ وہ اپنی بیٹی بھویہ کی پرورش بھی اپنے اسی کام سے کر رہی ہیں۔ اپنے اس فن کو مزید فروغ دینے اور لوگوں کو سکھانے کی غرض سے کاجل ڈرائنگ اور آرٹ کی کلاسیں بھی چلاتی ہیں۔ ان کی بیٹی بھویہ اور شوہر پرکاش کمار ہر نمائش میں ان کے ساتھ شرکت کرتے ہیں اور ان کے فن کے بارے میں لوگوں کو بتانے میں مدد کرتے ہیں۔ اشاروں کی زبان کی سمجھ رکھنے والے لوگوں نے نمائندہ کو بتایا کہ کاجل کا کہنا ہے کہ اس میلے کا حصہ بننا ان کے لیے باعث فخر ہے۔ دہلی کے لوگ کافی دلچسپ اور حوصلہ مند ہیں، وہ میری پینٹنگ دیکھ کر میرا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ کاجل ممبئی، ہریانہ اور دوسری ریاستوں میں منعقد ہونے والے معذوروں کے میلہ میں بھی شرکت کر چکی ہیں۔




Source link

Share this:

Exit mobile version