’’پی ایم مودی آئین کو پیشانی پر لگاتے ہیں، لیکن سنبھل و منی پور کے تشدد پر وزیر اعظم کی پیشانی پر کوئی شکن نہیں ہوتی، ملک کا آئین آر ایس ایس کا قانون نہیں۔‘‘
پرینکا گاندھی، تصویر @INCIndia
پرینکا گاندھی، تصویر@INCIndia
پرینکا گاندھی، تصویر @INCIndia
پرینکا گاندھی، تصویر@INCIndia
آج لوک سبھا میں آئین پر بحث کے پہلے دن جب حزب اختلاف کی طرف سے پہلی تقریر پرینکا گاندھی نے شروع کی تو سبھی کی نظریں ان پر ہی مرکوز تھیں۔ انھوں نے لوک سبھا میں کی گئی اپنی پہلی تقریر میں آئین سے جڑے کئی اہم ایشوز کی طرف ملک کی توجہ دلائی اور مرکز میں حکمراں بی جے پی کی قیادت والی حکومت کو آئینہ بھی دکھایا۔ انھوں نے اپنی تقریر کے دوران فرقہ واریت، اشتعال انگیز تقاریر، ریاستوں میں ہو رہے تشدد، کسانوں کے حالات، بڑھتی بے روزگاری سمیت مختلف موضوعات پر بات کی اور بی جے پی حکومت کو ہر محاذ پر ناکام قرار دیا۔ آئیے یہاں نظر ڈالتے ہیں پرینکا گاندھی کی تقریر میں موجود 10 اہم باتوں پر۔
ہندوستان کا آئین آر ایس ایس کا قانون نہیں ہے۔ ہمارا آئین صرف ایک دستاویز نہیں ہے۔ انصاف اور امید کی شمع ہے۔ ہمارا آئین انصاف کی گارنٹی دیتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی آئین کو پیشانی پر لگاتے ہیں، لیکن سنبھل اور منی پور کے تشدد پر وزیر اعظم کی پیشانی پر کوئی شکن نہیں ہوتی۔
خوف کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ جب وہ حد پار ہو جاتی ہے، تب اس میں ایک ایسی طاقت پیدا ہوتی ہے جس کے سامنے کوئی بزدل کھڑا نہیں ہو سکتا۔ یہ ملک بزدلوں کے ہاتھوں میں زیادہ دیر تک کبھی نہیں رہا۔ یہ ملک اٹھے گا، یہ ملک لڑے گا۔ سچائی مانگے گا، سچائی کی جیت ہوگی۔
ہندوستان کے لیے نہرو جی کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ نہرو نے ملک میں کئی پی ایس یو قائم کیے۔ آج ہمارے ساتھی زیادہ تر ماضی کی بات کرتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں ماضی میں کیا ہوا؟ نہرو جی نے کیا کیا؟ ارے موجودہ وقت کی بات کیجیے، ملک کو بتائیے کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کی ذمہ داری کیا ہے؟ ساری ذمہ داری کیا جواہر لال نہرو کی ہے!
آپ ’ناری شکتی‘ کی بات کرتے ہیں۔ آج انتخاب کی وجہ سے اتنی بات ہو رہی ہے، کیونکہ ہمارے آئین نے ان کو ووٹ کا حق دیا ہے۔ ان کی طاقت کو ووٹ میں بدلا۔ آج آپ کو سمجھنا پڑ رہا ہے کہ ان کے بغیر حکومت نہیں بن سکتی۔ آپ نے جو ’ناری شکتی‘ کا قانون لایا ہے، اسے نافذ کیوں نہیں کرتے؟ کیا آج کی خواتین 10 سال تک اس کا انتظار کرے گی؟
آج ذات پر مبنی مردم شماری کی بات ہو رہی ہے۔ برسراقتدار طبقہ کے ساتھی نے اس کا ذکر کیا، یہ ذکر اس لیے ہوا کیونکہ (لوک سبھا) انتخاب میں یہ (خراب) نتیجے برآمد ہوئے۔
لوک سبھا (انتخاب) میں یہ نتائج برآمد نہیں ہوتے تو آئین بدلنے کا کام بھی بی جے پی شروع کر دیتی۔ اس انتخاب میں ان کو پتہ چل گیا کہ ملک کی عوام ہی اس آئین کو محفوظ رکھے گی۔ اس انتخاب میں ہارتے ہارتے جیتنے کے بعد احساس ہوا کہ آئین بدلنے کی بات اس ملک میں نہیں چلے گی۔
آج کے راجہ بھیس تو بدلتے ہیں، لیکن ان کے پاس عوام کے درمیان جانے کی ہمت نہیں ہے۔ نہ ہی ان میں تنقید سننے کی طاقت ہے۔ آج ملک میں خوف کا ماحول بنایا جا رہا ہے، لیکن خوف پھیلانے والے آج خود خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔
وائناڈ میں جو آفت آئی، اس میں ایک لڑکے نے 6 گھنٹوں تک اپنی ماں کو بچانے کی کوشش کی۔ ان بچوں اور خواتین کی ہمت، سنبھل کے بچوں کی ہمت… یہ ہمت اس آئین کی عطا کردہ ہے۔ یہ بھروسہ اس آئین نے دیا ہے۔ یہ ملک خوف سے نہیں چل سکتا، یہ ملک ہمت سے ہی چلے گا۔
پورے ملک کی عوام جانتی ہے کہ بی جے پی کے پاس ’واشنگ مشین‘ ہے۔ جو حزب اختلاف سے برسراقتدار کی طرف جاتا ہے، اس کے داغ دھل جاتے ہیں۔ مجھے یہاں میرے کئی پرانے ساتھی برسراقتدار طبقہ کی طرف نظر آ رہے ہیں، جو شاید اب واشنگ مشین میں دھل گئے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔