پاکستان کی بدلتی ہوئی صورتحال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” سرکش قیدی” ، دوستوں کی رائے اور میرا ضمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی حالات دگرگوں ہیں۔ غزہ کی نسل کشی 14 ماہ سے جاری ہے۔ لبنان کی خوں ریزی کچھ حد تک تھم گئی ہے۔
میرے اندیشوں کے عین مطابق ، شام کی فتح پھر شکست میں بدل گئی ، جس کا ذکر میں نے اپنے مضمون “شام کا مستقبل” میں کیا تھا۔
اب دشمن شام کو عسکری طور پر پوری طرح بے دست و پا کرچکا ہے۔ بحری ، فضائی اور زمینی تنصیبات مسلسل اس کے نشانوں پر ہیں۔ اب دشمن کو اپنے توسیعی عزائم سے روکنے والی کوئی طاقت نہیں۔
سب خوفزدہ ہیں ، سوائے اہل غزہ کے۔
کل یعنی 10 دسمبر 2024ء کا دن پاکستان کی سیاست کا اہم ترین دن تھا۔ سابق جرنیل فیض حمید پر فرد جرم عائد کردی گئی۔ دوسری طرف “سرکش قیدی” نے 15 دسمبر سے سول نافرمانی کے اعلان کی دھمکی دی ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک ملک دشمنی یہ کہ اس نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو رقم بھیجنے سے منع کردیا ہے۔
فیض حمید اور “سرکش قیدی” کی دوستی مخفی نہیں۔ ریاست کے خلاف ان کے جرائم ثابت ہوجائیں تو ان دونوں کو سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔
“مقبولیت” ایک سراب ہے۔ ایک نشہ ہے۔ اصل چیز طاقت اور قوت ہے۔ جس کے پاس قوت ہے، وہ اپنی بات منواتا ہے۔ ضعیفی ایک جرم ہے۔
تقدیر کے قاضی کا ازل سے ہے یہ فتویٰ
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
قوت نیک و بد دونوں حاصل کرسکتے ہیں۔
نیک لوگوں کی قوت انسانیت کے لیے فلاح کی ضامن ہوتی ہے۔
بدکردار لوگوں کی قوت انسانوں کے لیے عذاب بن کر نازل ہوتی ہے۔
اپنے بیشتر دوستوں کی رائے کے بالکل برعکس ، (خصوصاً تحریکی دوستوں کی رائے) پاکستان اور تحریک کی پوری تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، پاکستان اور اسلامی تحریک کے بارے میں سوچتا ہوں کہ
اج پاکستان کی بقا کے لیے کیا ضروری ہے ؟
اج اسلامی تحریک کی بقا کے لیے کیا ضروری ہے ؟
اج 2024 میں ہمارے مشرقی اور مغربی دشمن پہلے سے زیادہ اس ملک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
اللہ نہ کرے غزہ ، لبنان ، شام اور عراق کے بعد ہماری باری نہ آجائے۔
بلوچستان میں روزانہ ہمارے سپاہی مر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں خوارج نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ دشمن افغانستان کو استعمال کررہا ہے۔
آئی ایم ایف نے جینا دوبھر کر رکھا ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان کو پہلے دن سے برطانیہ اور امریکہ نے ہدف بنایا۔ بریگیڈیر ایوب سے فیلڈ مارشل ایوب تک کی کہانی بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔ یحییٰ ، بھٹو ، ضیاء ، اور مشرف نے اچھے غلام ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔
کیسے دن آئے ہیں کہ
اب زرداری کہ رہا کہ رشوت کا خاتمہ ضروری ہے۔
“مقبولیت” کا غرہ نواز شریف کو بھی تھا۔
2018 کے انتخابات میں مقبولیت کے باوجود ، نواز شریف کو نکال کر موجودہ “سرکش قیدی” کو مسلط کیا گیا۔
2024 کے انتخابات میں مقبولیت کے باوجود ، سرکش قیدی کے بجائے فارم 47 کی بدولت ،
ایم کیو ایم ، زرداری اور شہباز کو مسلط کیا گیا۔
مقبولیت کے باوجود ، کراچی میں جماعت اسلامی کا میئر نہیں بنایا گیا۔
مقبولیت کے باوجود ، کراچی سے جماعت اسلامی کی 20 پارلیمانی سیٹیں ایم کیو ایم کو دی گئیں۔
بے تکلف وہ اوروں سے ہیں
ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے
2024 میں شہباز شریف کی کوششیں ، معاشی اور اقتصادی دائرے میں اچھی اور قابل تعریف رہی ہیں۔
“سرکش قیدی” نے ڈالر کو 305 تک پہنچادیا تھا۔ اب 278 پر استحکام ہے۔
ماہرین کہتے ہیں یہ بھی آئی ایم ایف کا دباؤ ہے ، ورنہ ڈالر فی الواقع 230 روپے سے زیادہ کا نہیں۔
عقل یہ کہتی ہے کہ شہباز حکومت کو چلنے دیا جائے۔ عمران کی سزا کے بعد ، پی ٹی آئی کو بھی قومی حکومت میں شامل کرلیا جائے ۔ چین سے گوادر تک مال آنے جانے لگے تو پاکستان کی معاشی حالت بہتر ہوتی جائے گی۔
جرنیل فیض حمید کو سزا دی گئی تو یہ پاکستانی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔
یہاں سویلین ہی سزاوار ٹھہرتے ہیں۔
فوجیوں کی کرپشن اور آئین شکنی پر کبھی سزا نہیں ہوتی۔
جرنیل فیض حمید کو سزا دے کر ، جرنیل عاصم منیر ایک نئی مثبت روایت قائم کریں گے۔ فوج اپنے حدود میں رہے گی۔ یہ ایک نیا پاکستان ہوگا۔ ان کے دور میں بھی حدود سے تجاوز ہوا ہے ، لیکن دیر آید درست آید کے مصداق اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
“سرکش قیدی” اور اس کے ہمنوا ، اپنی قوالی میں فارم 47 کی دھاندلی کا ذکر تو جھوم جھوم کر کرتے ہیں ، لیکن 2018 کی دھاندلی اور اس سے پہلے کی تاریخ پر چپ سادھ لیتے ہیں۔
ہم پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ مغرب عالم اسلام پر اقلیتی افراد کو مسلط کرتا ہے۔
پاکستان کے بارے میں بھی “قادیانی ، سیکیولر شیعہ اور لبرل مغرب نواز ” کا مجموعہ مغرب کے لیے قابل قبول ہوتا ہے۔
“سرکش قیدی” ، باجوہ اور فیض حمید کا گٹھ جوڑ کامیاب ہوجاتا تو یہاں بھی حافظ الاسد اور بشَّار الاسد 54 سال تک مسلط رہتے۔
دوستوں کی رائے کے برعکس ،
میں “سرکش قیدی” کو مشکوک العقیدہ سمجھتا ہوں۔ اس نے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرکے اور سی پیک CPEC کو بند کرکے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا۔ اب سول نافرمانی اور سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات کو بند کرکے ، “ایاک نستعین” کے نعرے کے ساتھ یہ ملک توڑنا چاہتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس قضیے میں باجوہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
اگر اسلامی تحریک کو مقبولیت کے باوجود ، پارلیمانی سیاست سے باہر رکھا جاتا ہے تو اب یہ جمعیت کو ہر ضلع میں مضبوط کرنے کا کام شروع کرے۔
ہر ضلع میں مسجد سے متصل جمعیت کا بڑا دفتر اور عظیم الشان لائبریری اور تربیت گاہ ہو۔
یہیں سے سرفروش اٹھیں گے۔
فارم بھرانے سے وفادار مجاھد پیدا نہیں ہوتے۔
کار نبوت کرو۔ کار نبوت!
سرکش جرنیلوں اور سرکش قیدی سے ہمیں کیا لینا ؟
22 کروڑ میں صرف 2200 ارکان جمعیت ہیں۔
یہ 0.00001% سے بھی کم بنتے ہیں۔
دیرپا کام کرو ، عارضی نہیں۔
بنیاد پر توجہ دو، نقش و نگار پر نہیں۔
پی ٹی آئی اور تحریک اسلامی کا DNA ڈی این اے ہی مختلف ہے۔ دھوکا نہ کھانا۔
انبیاء انسانوں کے دل و دماغ کو بدل کر ان کے اعمال کا تزکیہ کرتے ہیں۔
اسلامی تحریک کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اصل “کار نبوت” کیا ہے ؟
قیام عدل ، پاکیزہ نفوس کے بغیر ممکن نہیں۔
یہ بلدیاتی مسائل پہ مشتمل ہے کتاب
خدا کا ذکر ہی مفقود ہے کہانی میں
مغرب تو روز قیامت اور اخرت کو نہیں مانتا ۔
وہ اپنی عسکری قوت کے بل بوتے پر ہماری نسل کشی کررہا ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ ہم اخرت کے ترانے گاتے ہی چلے جائیں۔ ہمارا بچہ بچہ اس عارضی زندگی کی حقیقت کو جان لے اور اخرت کے مناظر کو جاگتی آنکھوں سے دیکھنا شروع کردے۔
ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے ، دوسروں کا نہیں۔
وقتی فائدے اور نقصان سے بالاتر ہوکر ،
ہمیں اپنی فصل کاشت کرنی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَفِی ٱلۡـَٔاخِرَةِ عَذَابࣱ شَدِیدࣱ
اخرت میں سخت عذاب بھی ہے،
وَمَغۡفِرَةࣱ مِّنَ ٱللَّهِ
اللہ کی طرف سے درگزر بھی ہے،
وَرِضۡوَ ٰنࣱۚ
اللہ کی رضامندی بھی ہے
وَمَا ٱلۡحَیَوٰةُ ٱلدُّنۡیَاۤ إِلَّا مَتَـٰعُ ٱلۡغُرُورِ
لیکن دنیا کی زندگی تو دھوکے کا مختصر سامان ہی تو ہے ( الحدید : 20)
سَابِقُوۤا۟ إِلَىٰ مَغۡفِرَةࣲ مِّن رَّبِّكُمۡ وَجَنَّةٍ
اس لیے اپنے رب کے درگزر اور جنت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔ ( الحدید : 21)
پہلے مغفرت کی منزل ہے ، پھر جنت ، پھر رضامندی اور پھر اللہ کا دیدار ، جو صرف جنتیوں کے لیے ہوگا ۔
خلیل الرحمٰن چشتی
11 دسمبر 2024
اسلام آباد