3دسمبر کو جب وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف لاہور میں ’’ستھرا پنجاب‘‘ تقریب سے خطاب کررہی تھیں، اُسی وقت وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا جناب علی امین گنڈا پور ایک یونیورسٹی کانووکیشن سے مخاطب تھے، عین اُسی وقت نائب وزیر اعظم جناب اسحاق ڈار ایرانی شہر( مشہد) میں ایک اہم عالمی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کررہے تھے اور اِنہی لمحات میں وزیر اعظم پاکستان جناب شہباز شریف سعودی دارالحکومت، ریاض، میں اُتر رہے تھے ۔محترمہ مریم نواز شریف اور جناب علی امین گنڈا پور نے اپنے اپنے انداز میں اپنے اپنے حریفوں پر غصہ جھاڑا ہے ۔
مریم نواز شریف صاحبہ نے کہا:’’ پنجاب اور پاکستان سے سیاسی گند کا صفایا ضروری ہے ۔‘‘محترمہ نے اشارے کنائے سے بتا بھی دیا کہ وہ کسے ’’سیاسی گند‘‘ قرار دے رہی ہیں۔
سوال مگر یہ ہے کہ کیا کسی کو بھی ’’سیاسی گند‘‘ سے مشابہہ کہا جا سکتا ہے ؟ بقول غالب: تمہی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے ؟ اور علی امین گنڈا پور بھی کانووکیشن کے شرکت کنندگان سے اشاروں میں کہہ رہے تھے:’’ غلط پالیسیوں نے ہمارے صوبے کا امن و امان اور معیشت تباہ کر ڈالی ہے ۔‘‘ موصوف 24نومبر کی مبینہ ہزیمت سے اسقدر خائف اور نادم ہیں کہ اپنے خطاب میں یہ بتانے سے قاصر رہے کہ کونسی ’’غلط پالیسیاں‘‘ اور یہ مبینہ غلط پالیسیاں کس کی ساختہ اور پرداختہ تھیں؟ علی امین صاحب کا یہ اسلوبِ گفتگو کیا یہ نہیں بتا رہا کہ اسلام آباد پر ناکام یلغار نے اُنہیں خاصا محتاط بنا دیا ہے ؟
مگر ’’فائنل کال‘‘ میں شدید ناکامی کے باوصف بانی پی ٹی آئی کا لہجہ محتاط ہے نہ اُن کی مزاحمت ماند اور مدہم پڑی ہے ۔ موصوف نے ’’فائنل کال‘‘ کے نتیجے میں جنم لینے والے واقعات کو ’’ دوسرا سانحہ لال مسجد‘‘ قرار دے ڈالا ہے ۔ اور وہ، اپنی ہمشیرہ محترمہ کی معرفت، یہ بھی کہتے ہُوئے ہمیں سنائی دے رہے ہیں:’’ ابھی میرے پاس ایک آخری کارڈ ہے ۔
اِس کارڈ بارے کسی کو بتاؤں گا نہیں۔ ابھی اِس کارڈ کو استعمال نہیں کروں گا۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ کارڈ کو وقت آنے پر استعمال کروں گا۔ کیا یہ کارڈ ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ ہے ؟ نَو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کارڈ ، جس سے پی ٹی آئی کے وابستگان نے بڑی اونچی اُمیدیں وابستہ کررکھی ہیں؟ مگر یہ ’’کارڈ‘‘ تو 20جنوری2025 کو حلف اُٹھائے گا۔ تو کیا بانی پی ٹی آئی تب تک یہ کارڈ بروئے کار لانے کے لیے صبر سے کام لیں گے ؟ کیا اِس کارڈ کے ذکر سے موصوف نے اپنے حریفوں پر ایک نیا اور غیر مرئی دباؤ ڈالنے کی چال چلی ہے؟
دو ہفتے گزرنے کے باوجود اب بھی اسلام آباد پر پی ٹی آئی کی اُمنڈتی ’’تاریخ ساز‘‘ لہروں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔ یہ سیاسی واقعہ یا سانحہ اب پیچھے رہ گیا ہے۔ متنوع اُمورِ مملکت کو مگر آگے بڑھنا ہے ۔ جناب شہباز شریف کا سعودی عرب اور اسحاق ڈار صاحب کا دَورۂ ایران اِسی امر کا مظہر ہے ۔ہمارے وزیر اعظم اور نائب وزیر اعظم سعودی عرب اور ایران میں ہونے والی مذکورہ اہم کانفرنسوں سے اہم خطاب کرکے وطنِ عزیز واپس آ چکے ہیں ۔
جناب اسحاق ڈار (ECO)یعنی ’’کونسل منسٹرز آف اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن‘‘ کے28ویں اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے مشہد ایسے تاریخی و مذہبی شہر گئے تھے۔ یہ تنظیم دراصل RCDہی کی ایکسٹینشن ہے۔ آر سی ڈی میں تو کبھی صرف پاکستان ، ایران اور ترکی تھے ، مگرECOمیں دُنیا کے 8اہم ممالک شامل ہیں :پاکستان ، ایران ،ترکیہ ، افغانستان، قزاقستان، آذربائیجان، تاجکستان اور ترکمانستان۔
آٹھ ممالک کا یہ اتحاد (ECO) دراصل 46کروڑ نفوس کی نمائندگی کرتا ہے۔ اِس کا ایک اجلاس پاکستان میں بھی ہو چکا ہے۔ سابق وزیر اعظم، جناب نواز شریف، نے اس اجلاس کی صدارت کی تھی۔ 3دسمبر کو مشہد میں ECOکی یہ کانفرنس ایسے موقع پر ہُوئی ہے جب ایران سمیت پورا مشرقِ وسطیٰ صہیونی اسرائیلی حملوں اور جارحانہ یلغاروں سے پریشان ہے۔جب اسرائیل نے ایران پر اور ایران نے اسرائیل پر حملے کرکے ایک دوسرے کے جنگی بازُو آزما لیے ہیں۔جب صہیونی اسرائیل ’’غزہ‘‘ کو مکمل تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ’’غزہ‘‘ میں45ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے ۔
جب امریکا و مغربی ممالک کا حمائت یافتہ صہیونی اسرائیل بیک وقت شام اور لبنان پر حملے کرکے دونوں ممالک کو بھی خون میں نہلا چکا ہے ۔ایسے میںECOکے تازہ ترین 28ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے اسحاق ڈار صاحب نے پاکستان،پاکستانیوں اور ملّتِ اسلامیہ کے احساسات و خیالات کی ترجمانی کرتے ہُوئے بجا کہا ہے:’’اسرائیل نے خطّے کی سلامتی اور سیکورٹی کو داؤ پر لگا دیا ہے ‘‘۔
مگر اِس طرح کے بیانات سے اسرائیل کو جارحیتوں اور ظلم سے باز رکھنا ممکن ہو سکا ہے نہ اُسے غزہ، شام اور لبنان کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے روکا جا سکا ہے ۔
حیرانی کی بات ہے کہ جس وقت ECOکے رکن ممالک اسرائیل بارے اِن بیانات کے غیر مضر گولے داغ رہے تھے، عین اُسی وقت OICاپنی ویب سائیٹ پر یہ باتصویر خبریں شائع کررہا تھا کہ صہیونی اسرائیل اب تک شام، غزہ اور لبنان میں اتنی مساجد کو شہید کر چکا ہے ۔ بجائے اِس کے کہ عالمِ اسلام کی متفقہ و متحدہ تنظیم OICپوری فوجی طاقت سے اسرائیل کو برابر کا جواب دیتی، وہ صرف بیانات دینے اور تصاویر شائع کرنے پر اکتفا کررہی ہے ۔
عالمِ اسلام کی اِسی (ازلی) کمزوری کی موجودگی میں3دسمبر 2024 کو نومنتخب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نے مشرقِ وسطیٰ اور غزہ میں بروئے کار ’’حماس‘‘ کے جنگجوؤں کو سخت الفاظ میں یوں دھمکی دی ہے :’’میں فخریہ طور پر20جنوری کو امریکی صدر کا حلف اُٹھا رہا ہُوں۔ وہ تاریخ آنے سے پہلے پہلے (حماس سمیت) وہ سب قوتیں جنھوں نے اسرائیل کے (120سے زائد) شہری یرغمال بنا رکھے ہیں ، اگر رہا نہ کیے تو مشرقِ وسطیٰ کو جہنم بنا دوں گا۔‘‘
عالمی صہیونیت اورظالم و غاصب اسرائیل کے حق اور محبت میں دیے گئے اِس دھمکی آمیز بیان کا آیا یہ مطلب ہے کہ مبینہ اسرائیلی یرغمالی رہا نہ کیے جانے کی صورت میں نَو منتخب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، پورے مشرقِ وسطیٰ پر حملہ کرنے والے ہیں؟یہ دھمکی عین اُس روز دی گئی جس روز مشہد میں ECO اجلاس کے دوران ایران، لبنان، غزہ اور شام کے حق میں اعلانات کیے جا رہے تھے۔ اِس دہکتے منظر میں ہمارے وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے ریاض میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کی ہے ۔ پچھلے 6 ماہ کے دوران شہباز شریف نے شہزادہ محمد بن سلمان سے پانچویں ملاقات کی ہے ۔
یہ تازہ ملاقات دراصل ریاض میں ہونے والی سربراہی کانفرنس(One Water Summit) کا حصہ تھی۔جناب محمد بن سلمان نے فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون، قزاقستان کے صدر قاسم جومارٹ اور عالمی بینک کے صدر اجے بانگا کے تعاون سے یہ کانفرنس کروائی ہے ۔ اِس کا بنیادی مقصد تو ماحولیات کا تحفظ ہی تھا ، مگر اِس میں اِن اوامر کا بھی گہرا جائزہ لیا گیا کہ دُنیا میں تیزی سے کم ہوتے ہُوئے تازہ پانی کے وسائل نیز حیاتیاتی تنوع کو کیسے محفوظ کیا جائے؟ بظاہر تو اِس کانفرنس کے یہی مقاصد تھے مگر تجزیہ کاروں کا خیال یہ ہے کہ جس پریشان کن انداز میں غزہ اور لبنان کے حالات بگڑ چکے ہیں اور اب مملکتِ شام جس تیزی کے ساتھ باغیوں کے سامنے بکھر رہی ہے، اِن اُمور پر مشورہ لینے کے لیے خاص طور پر سعودی کراؤن پرنس صاحب نے جناب شہباز شریف کو اپنے ہاں خصوصی طور پر مدعو کیا ہوگا ۔
نئے شامی باغیوں کے سامنے شامی صدر، بشارالاسد، کی جزوی پسپائی سے سبھی عرب حکمران پریشان ہیں ۔ ایسے میں عین ممکن ہے کہ سعودی ولی عہد نے کسی خاص مشورے کے لیے ایٹمی پاکستان کے وزیر اعظم کو اپنے ہاں مدعو کیا ہو۔ وزیر اطلاعات، جناب عطاء اللہ تارڑ، نے بھی کہا ہے کہ سعودی ولی عہد اور شہباز شریف کی تازہ ملاقات انتہائی غیر معمولی تھی۔