جب ہم نے 26 نومبر 1949 کو آئین ہند کے دستخط کی 75 ویں سالگرہ منائی، تو یہ حیرت کی بات ہے کہ ہم اتنے عرصے تک قائم رہ سکے ہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنی آخری تقریر میں آئین ساز اسمبلی میں 25 نومبر 1949 کو کہا تھا، ’’کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی؟ یہی سوچ مجھے تشویش میں مبتلا کرتی ہے۔ یہ تشویش اس حقیقت سے گہری ہوتی ہے کہ ہماری قدیم دشمنیوں کے ساتھ ساتھ، جو ذاتوں اور عقائد کی شکل میں ہیں، ہمیں کئی سیاسی جماعتوں کا سامنا بھی ہوگا جو مختلف اور متضاد سیاسی عقائد رکھتی ہیں۔ کیا ہندوستانی اپنے عقیدے سے بالا تر ہوں گے یا عقیدہ ملک سے اوپر رکھیں گے؟ میں نہیں جانتا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں عقیدے کو ملک پر اہمیت دیں گی، تو ہماری آزادی پھر خطرے میں پڑ جائے گی اور شاید ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔‘‘
آج ملک کو پرامن طریقہ سے چلانے کے بجائے سیاسی عقیدے کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ ’انڈیا کہ کہ بھارت (ہندوستان) ہے‘ کو ’بھارتی’ کے تصور سے بدل دیا گیا ہے، جس سے ’ہندوستان کے خیال‘ کو پس منظر میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ایک ہندی-ہندو-ہندوستان کا تصور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جن کی شناخت ان علامات میں نہیں آتی، انہیں لازمی طور پر عوامی امور میں کم تر شرکت اور حصہ داری قبول کرنی ہوگی۔ اگر شہریت حقوق کا حق ہے تو مذہب اور زبان کی بنیاد پر اکثریت پرستی یہ عزم کرتی ہے کہ وہ افراد جن کی شناخت متعین کردہ ظاہری شناخت سے ہم آہنگ نہیں، ان کے کچھ حقوق کو پامال جائے گا۔