لاہور:
بانی پی ٹی آئی کی ضمانت کے کیس میں وکیل نے دلائل میں کہا کہ میڈیکل کو سچ ثابت کرنے کے لیے پرویز مشرف کو دنیا چھوڑنی پڑی۔
9 مئی کے 8 مقدمات میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت میں ان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر انسداد دہشت گردی عدالت کے جج منظر علی گل کے روبرو پیش ہوئے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی رائے کا غلط ری ایکشن عوام کی طرف سے آیا۔ بانی پی ٹی آئی کے 240 سے زائد مقدمات میں وکالت میں دے چکا ہوں۔ ایک ملزم کے خلاف ہر طرح کے کیس رجسٹر ہوئے۔ کوئی ایسی دفعہ نہیں جس کے تحت مقدمہ درج نہ ہوا ہو۔ سائفر کا مقدمہ سپریم کورٹ تک گیا، باقی تمام میں ریلیف ماتحت عدالتوں سے ملا۔
وکیل نے کہا کہ 30 مقدمات میں حکومت کے خلاف فیصلے ہو چکے ہیں۔ 25 کے قریب فیصلے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ ہر مقدمے میں مدعی پولیس والے ہیں۔ حکومت گوگلی،لیگ بریک، آف بریک دوسرا تیسرا پھینک چکی ہے۔ کبھی کہتے ہیں سازش اس طرح ہوئی، پھر کہتے ہیں نہیں اس طرح سے سازش ہوئی۔ بشریٰ بی بی کو 12 مقدمات میں شامل کیا گیا کہ سازش میں یہ بھی ملوث تھیں۔ تہمت لگانا آسان اور ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میں آپ سے ڈسچارج یا مقدمے کا اخراج نہیں مانگ رہا۔ آپ یہ سہولیات دے بھی نہیں سکتے۔ کافی عرصے سے ملزم قید ہے، میں عدالت سے ضمانت مانگ رہا ہوں۔
وکیل نے دلائل میں کہا کہ پرویز مشرف کے میڈیکل پیش کیے، ان کو سچ ثابت کرنے کے لیے انہیں دنیا چھوڑنی پڑی۔ اس کے بعد سب کو یقین آیا کہ تمام میڈیکل درست تھے۔ بانی پی ٹی آئی کی 9 تا 12 مئی نیب کی تحویل میں ہونے پر ججز نے ریلائے کیا ہے۔
بعد ازاں اسپیشل پراسیکیوٹر راؤ عبدالجبار نے اپنے دلائل میں کہا کہ تمام کیسز سرکار سے بغاوت اور حساس تنصیبات پر حملے کے ہیں۔ جو فیصلے پیش کیے گئے ان کا ان کیسز سے تعلق نہیں ہے۔ برطانوی قانون کے مطابق بادشاہ قابل مواخذہ نہیں ہے۔ ملزم کوئی بادشاہ نہیں ہے۔ ملزم کے اشارے پر 200 تنصیبات پر حملے کیے گئے۔ سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ آج حقیقی جہاد کا دن ہے۔ بھارت کے ٹی وی چینل بھی یہی خبر چلاتے رہے۔
پراسیکیوٹر نے دلائل میں مزید کہا کہ کینٹ کی مخصوص جگہوں پر عام لوگوں کا جانا ممنوع ہے۔ ماڈرن ڈیوائس ہر شخص کے پاس ہے جو لوکیشن اور پیغامات بتاتی ہے۔ پی سی ہوٹل، آواری ہوٹل یا انارکلی میں دودھ دہی کی دکان پر حملہ کیونکر نہیں کیا گیا۔ فوجی تنصیبات ہی پر حملے کیے گئے۔ کرنل شیر خان شہید کے مجسمے کو لاتیں ماری گئیں، جنہوں نے ملک کی حفاظت کے لیے جان کی قربانی دی۔ یہ جنگ اور حملے آج بھی جاری ہیں۔ رینجر اور پولیس اہلکار شہید ہوئے، جب کہ ملزم کہتا ہے کہ میں تو جیل میں ہوں۔