مسئلہ بابری مسجد کا نہیں ، مسئلہ ہندوستانی مسلمانوں کےوجود کا ہے
پانچ اگست کو رام مندر کی سنگ بنیاد رکھی گئی۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ تیسرا موقع تھا جب مسلم سماج پر مایوسی ، غم اور غصے کی فضا چھائی ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا سے لےکر اخبارات تک اور ٹیلی ویژن کے بعض حصوں تک ہمیں یہ دیکھنے کو ملا کہ مسلم طبقے مختلف حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ شہادت بابری مسجد اور رام مندر کی سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد مختلف اخباروں میں بے شمار مضامین چھپے۔ ان میں سے میں یہاں ان چار مضامین کا ذکر کروں گا جو ہمارے سماج کے مختلف طبقوں کى عکاسی کرتے ہیں۔ پہلا ، ” رام مندر مسلمانوں کے سینے کا زخم” (از: محمد صابر حسین ندوی) یہ مسلمانوں کے اندر کے مایوسی کی عکاسی کرتا ہے۔ دوسرا ، “میری تعمیر کا تم پھر سے ارادہ رکھنا” (ڈاکٹر ظل ہما بنت مولانا عبد العلیم) یہ کمزور ارادوں کی غماز ہے۔ تیسرا ، “بابری مسجد! تیرے ذروں سے تکبیریں مسلسل گونجے گی” (ظفر امام) ، اس کے اندر جوش ، غصہ اور غم پایا جاتا ہے۔ اور چوتھا، “وقت دعا ہے ۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ” (شکیل رشید) ، یہ سماج کے اس طبقے کی عکاسی کرتا ہے جس کو ہمارے قائدین اور علماء تسبیح پڑھنے اور اپنے گھروں میں بیٹھ کر دعا کرنے کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں۔
بہت سارے سوالات ہمارے نوجوانوں کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں کہ آخر ان حالات میں کیا کیا جائے؟ شاید آپ نے بھی تاریخ میں پڑھا ہوگا کہ جاپان پر 6/ اگست 1945 اور ناگاساکی پر 9 /اگست 1945ء کو امریکہ نے ایٹم بم گرایا۔ شاید آپ نے صرف اتنا ہی سنا ہوگا ، لیکن اس کے آگے کی بات یہ ہے کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد امریکہ کی فوجوں نے جاپان کے ہر شہر پر بمباری کی تھی۔ اور ہر شہر کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔ گویا کہ صرف ناگاساکی اورہیروشیما تباہ نہیں ہوئے بلکہ پورا جاپان تباہ ہو گیا تھا۔ ہیروشیما میں نوے سے ایک ہزار آدمی بیک وقت مارے گئے جبکہ ناگاساکی میں ساٹھ ہزار سے ستر ہزار آدمی ایک مرتبہ میں مارے گئے۔ اس قوم کے ڈھائی سے تین لاکھ افراد کو چند گھنٹوں میں مار دیا گیا۔پورا شہر نہیں بلکہ پورا ملک تباہ کر دیا گیا۔ وہاں کے اقتصادی حالات برباد ہوگئے ، بینکوں کو تباہ کردیا گیا ، سڑکیں تباہ ہوگئیں ، ذرائع تنقل کو ختم کردیا گیا۔ گویا ہر طرف سے جاپان کو کمزور اور لاچار کر دیا گیا تھا۔ پوری دنیا کی آنکھیں جاپان پر ٹکی ہوئی تھیں کہ اب جاپان کیا کرے گا؟ امریکہ کے بمباری کے بعد جاپان میں 1945ء میں جو بحران آیا تھا وہ ذرا اس طرح ہے۔ جاپان کی بنیادی قومی اقتصاد 25٪ فیصد برباد ہو گیا ، فوجی جہاز اور بحری جہازیں 100٪ سو فیصد مکمل طور پر تباہ ہو گئے،تجارتی ذرائع 81٪ فیصد ، فیکٹریاں 34٪ فیصد ، شہر 33٪ فیصد ، عمارات و مکانات 25٪فیصد ، ذرائع مواصلات 16٪ فیصد ، بجلی اور ذرائع ابلاغ 11٪ فیصد اور ریلوے سڑک اور دیگر کل 10٪ فیصد تباہ و برباد ہو گئے تھے۔
جاپان نے اس تباہی و بربادی کے بعد ایک پالیسی اختیار کیا جس کا نام پریوریٹی پروڈکشن سسٹم (Priority Production System) تھا۔ اس پالیسی کے تحت انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جاپان کو دوبارہ اپنے بَل پر کھڑا ہونے کےلئے کس چیز کو ہم سب سے پہلے اور کتنا تیار کریں؟ جاپان کے وزیراعظم شیگرو یوشدا (Shigeru Yoshida) جاپان کی تعمیر نو کے لئے ایک جماعت کو تشکیل دی ، اور ان سے کہا کہ وہ ان کو ہر وہ چیز جس کی ملک کی بہتری اور ترقی کے لئے کار آمد ہے، کی ایک لسٹ تیار کرکے دیں تاکہ وہ غیر ممالک سے منگوا سکیں۔ ان کے ایڈوائزر گروپ کے ممبران نے بہت ہی لمبی فہرست تیار کر کے دیا۔ لیکن وزیراعظم نے اس فہرست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے صرف ان پانچ چیزوں کی لسٹ تیار کر کے دو جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ انہوں نے پھر سے ان کو ایک نئی فہرست بنا کر دیا جس میں سٹیل (Steel) ، کوئلہ (Coal) ، ہیوی آئل (Heavy Oil) ربڑ (Rubber) اور بس (Bus) شامل تھا۔
جاپان ملک کی تعمیر نو کے لیے سب سے زیادہ ان چیزوں کو اہمیت دی جن سے ملک طاقتور بن سکے۔ لہذا جاپان نے سب سے پہلے قومی کمپین برائے حفاظت کوئلہ (Coal Protection National Campaign) چلایا، جس میں کسی بھی قیمت پر تیس ملین ٹن کوئلہ جمع کرنا ان کا ہدف تھا۔ اور اس ہدف کو حقیقت میں بدلنے کے لئے نہ صرف عوام بلکہ وزراء بھی کوئلہ کی تلاش میں سورنگ کے اندر جانے لگے اور وہاں کام کرنے والے مزدوروں کی حوصلہ افزائی کرنے لگے ، ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ریڈیو وغیرہ کا بھی استعمال کرنے لگے۔ پھر انہوں نے 1947ء تک تیس ملین ٹن کوئلہ پروٹیکشن کا ہدف حاصل کر لیا۔ اور پھر انہی کوئلوں کے ذریعے فیکٹریاں ، بڑی بڑی انڈسٹریاں چلنے لگیں اور جاپان پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے لگا ۔
آج ہم اور آپ اسی موڑ پر کھڑے ہوئے ہیں۔ جاپان کی بات تقریبا 75 سال پہلے کی بات ہے اور آج 2020 میں ہم اور آپ اسی موڑ پر کھڑے ہیں۔ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کا وجود یقینا خطرے میں ہے۔ رام مندر کی سنگ بنیاد سے ہمیں کوئی دقت نہیں۔ بابری مسجد کی شہادت یقینا ایک افسوس ناک عمل ہے۔ مگر بابری مسجد کی شہادت کا مسئلہ نہیں ہے ، مسئلہ پچیس کروڑ مسلمانوں کےوجود کا ہے۔ جس طرح جاپان نے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور اپنے اندر طاقت پیدا کرنے کے لئے جو قدم اٹھایا تھا ، آج اسی طرح ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر طاقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک قوم کی طاقت کیا ہوتی ہے؟ ہماری کتاب قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو پہلی آیت ” اقرأ باسم ربك الذي خلق” نازل کی تھی وہ ہے ہماری طاقت۔ علم ہی ہماری طاقت ہے ، صرف اور صرف تعلیم کے ذریعے ہی ہم ان پر غالب آ سکتے ہیں۔ دنیا میں اگر کسی قوم کو ترقی حاصل کرنا ہے تو اس کی طاقت علم و تعلیم ہے۔ جب ایک قوم کے اندر علم و تعلیم کا بول بالا ہو تا ہے تو قوم خود بخود حرکت میں آتی ہے۔ اور جب ایک قوم حرکت میں آتی ہے تو سماج سے غربت ، ظلم وغارت کا خاتمہ ہوتا ہے اور ترقی، عدل و انصاف کی راہ ہموار ہوتى چلى جاتى ہے۔ اور پھر اس قوم کے آگے صرف ترقی ہی ترقی دکھائی دیتی ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ہماری قوم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہم تو سوشل میڈیا ، فیس بک وغیرہ پر اپنی بدحالی کی شکایت کرتے ہیں اخبار و میگزینوں میں ہم ہمارے بدحالی کى روداد سنتے اور سناتے ہیں۔ حالانکہ ان سب سے کچھ ہونے والا نہیں ہے بلکہ ہمارے حالات بد سے بدتر اور بدتر سے بدترین ہو جائیں گے اگر ہم نے آج اگلے دس یا بارہ سال کا پلان نہیں کیا کہ ہم ہندوستانی مسلمانوں کو کس شکل میں ڈھلنا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمیں اس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب بالکل واضح ہے۔ ہم میں سے ہر فرد کے لیے کام ہے۔ بحیثیت عمومیت ہم میں سے ہر فرد کو یہ طے کرنا ہے کہ ہم ہر سال تعلیمی میدان میں اپنا ٹارگیٹ ( ہدف) پورا کریں گے۔ بابری مسجد کا قضیہ ہم اس لیے ہار گئے کہ وکیل ہمارے نہیں تھے۔ آج نوجوان جیلوں کے اندر بند ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اور یقیناً آنے والے دنوں میں ایک وقت آنے والا ہے جب کوئی غیر مسلمان ہمارے کیس اور مقدمہ لینے کو تیار نہیں ہوگا۔ کیوں نہ ہم ہمارے سامنے ایک ہدف رکھتے ہیں کہ ہم بحیثیت مجموعی طور پر پوری امت مسلمہ ہندیہ مل کر پانچ سے دس ہزار وکلاء كو عدالتوں کے اندر داخل کردیں ۔ ہمارے ہزاروں مدرسے جو ویران پڑے ہوئے ہیں وہاں سے سینکڑوں کی تعداد میں ہم ہر سال وکلاء پیدا کریں اور انہیں عدالتوں کے اندر بھیجیں تاکہ ہماری آواز اور طاقت مضبوط ہوں۔ کیوں نہ ہم یہ ٹارگیٹ کریں کہ ہر سال کم سے کم پانچ ہزار پورے ہندوستان میں کہیں نہ کہیں پولیس کے اندر اپنے نوجوانوں کو بھرتی کرائیں ۔ اور ہم اس ہدف کو حاصل کر کے رہیں گے۔ کیوں نہ ہم یہ عزم کریں کہ ہر سال ہم میں سے کم سے کم سو آئی اے ایس (IAS) پیدا کریں گے۔ ہمیں یہ عزم کرنا ہے کہ ڈاکٹری کا جو پیشہ ہے وہ مسلمانوں کا پیشہ بن جائے۔ ہمیں یہ ہدف بنانا ہے کہ پورے ہندوستان میں آئی ٹی پر مسلمانوں کا قبضہ ہو تاکہ دیگر اقوام ہمارے محتاج بن جائیں۔ اور یاد رکھیئے جس دن دوسرے اقوام ہمارے محتاج بن جائینگی اس دن طاقت ہمارے پاس ہوگی۔
آج بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے پر افسوس اور ماتم کرنے کے بجائے ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم ہندوستان کا نقشہ بدل دینگے، اپنی قوم کا نقشہ بدل دیں گے ، تعلیم کے ہر میدان میں مسلمان اول نمبر پر آئیگا۔ وکلاء ہمارے ہوں گے ، ڈاکٹرز ہمارے ہوں گے ، ہمارے پاس آی ٹی انجینئر ہونگے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے تمام سیکٹروں میں مسلمانوں کو بھر دیں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح جاپان نے دو سال کے اندر 30 ملین ٹن کوئلہ کا ہدف حاصل کیا تھا ہم 30 ہزار انجنیئر ، ڈاکٹر اور وکلاء کا ہدف پورا کریں گے اور انہیں حاصل کرکے رہیں گے۔
ہزاروں کی تعداد میں ہمارے پاس مدرسہ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند مدارس کو تبدیل کرکے ہندوستان کی معیشت ، آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں حصہ لیں۔ زکوۃ کے اموال سے ہم ان میں خرچ کریں۔ اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے ، ” إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم ” بیشک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں ۔ مجھے ہندوستانی نوجوانوں سے امید قوی ہے کہ انشاءاللہ آنے والے دس سالوں کے اندر وہ ہندوستان کا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے۔