سبھی کی نگاہیں رفح پر
رفح جنوبی غزہ کی پٹی کے مغرب میں مصری سرحد پر موجود ایک فلسطینی شہر ہے۔ یہ بہت ہی قدیم اورتاریخی شہر ہے۔ قدیم مصری زبان میں یہ شہر رافیہ کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ پرانے زمانے میں کنعانیوں، فراعنہ مصر، حشمونی سلطنت، رومی سلطنت، سلوقی سلطنت، بازنطینی سلطنت، خلافت راشدہ، خلافت امویہ، خلافت عباسیہ، فاطمی سلطنت، ایوبی سلطنت، مملوک سلطنت اور عثمانیوں نے اس علاقے پر حکومت کی تھی۔ خلیفہ ثانی امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جب صلیبی طاقتوں کا زور تھا اور رفح عیسائیوں کے قبضے میں تھا تب آپ کے حکم سے حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اسے عرب مسلمانوں نے فتح کرلیا تھا۔
آئیے کرونولوجی (تاریخ) سے سمجھتے ہیں:
1517ء میں مملوک سلطنت کو ہراکر سلطنت عثمانیہ نے اس پر اپنا قبضہ جمایا۔
1801ء میں عثمانی سلطنت کے دوران فرانسیسی جرنل نیپولین بونا پارٹ نے اس پرقبضہ کرنا چاہا پرایک عثمانی جرنل سے شکست کھا کرواپس فرانس بھاگ گیا۔
1906ء میں، عثمانیوں اور انگریزوں کے درمیان مصر اور شام کے درمیان سرحد کی حد بندی پر تنازعہ پیدا ہوا۔
1917ء میں، عثمانی سلطنت کمزو ر پڑنے لگی اور رفح پر برطانوی حکومت نے قبضہ کرلیا۔
1948ء میں اسرائیل نامی ایک جھوٹے ملک اعلان کا اعلان ہوا۔ اسی دوران عرب۔اسرائیل جنگ میں مصر نے رفح پرقبضہ کیا اور بے گھر فلسطینیوں کے لیے پناہ گزین کیمپ قائم کیے جو اسرائیل سے بھاگ کر آئے یا نکالے گئے تھے۔
1956ء میں اسرائیل نے رفح میں قتل عام مچایا اور سیکڑوں فلسطینیوں کوشہیدکردیا۔
1967ء میں اسرائیلی افواج نے پھر رفح پر حملہ کرتے ہوئے کئی فلسطینیوں کو ہلاک کیا اوررفح اوراس سے جڑے جزیرہ نما سینائی پر اپنا قبضہ جما لیا۔
1982ء میں جب اسرائیل نے سینائی سے دستبرداری اختیار کی تو رفح کو غزہ کے حصے اور مصری حصہ میں تقسیم کر دیا گیا۔
1987ء میں انتفاضہ اولی (پہلی فلسطینی بغاوت)شروع ہوئی جو کہ 1993ء میں ختم ہوئی۔
2000ء میں انتفاضہ ثانیہ (دوسری فلسطینی بغاوت) شروع ہوئی جو 2003ء میں ختم ہوئی۔
2001ء میں غزہ کے واحد ہوائی اڈے ’یاسر عرفات بین الاقوامی ہوائی اڈا‘ جو رفح شہر کے بالکل جنوب میں واقع تھا، پر اسرائیلی فوج نے بمباری کی اور اسے بلڈوز کردیا۔
2005ء میں سالوں چل رہی اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی اوررفح سے اپنی افواج اور لوگوں کوواپس نکال لیا۔ اور پھر فلسطینی حکومت جاری کردی گئی۔
2007ء میں حماس نے رفح سمیت پورے غزہ پر اپنا قبضہ کرلیا۔
بھلے اسرائیل سن 2005ء میں واپس لوٹ گیا تھا، لیکن پھر بھی کسی نہ کسی بہانے غزہ پٹی اور رفح پر اس کی ظالمانہ جارحیت اور حملے جاری رہے۔ حماس نے بھی جوابی حملے جاری رکھے۔ سن 2008ء، 2012ء،2014ء اور2021ء میں اسرائیل اور حماس کے مابین کئی دفعہ فضائی و زمینی جنگیں ہوئیں جس میں اسرائیل کا تو زیادہ کچھ نہیں بگڑا مگر ہزاروں کی تعداد جن میں تقریبًا 80%فیصد سے زائد عام بے گناہ فلسطینی لوگ تھے شہید ہوگئے۔ یہی وہ دورتھا جب اسرائیلی اور مصری حکومت نے رفح بارڈرکراسنگ پر اپناقبضہ جمائے رکھا اورکسی بھی شے یا انسان کی آمدورفت پر پابندیاں لگا دی گئی۔ پھر کیا تھا رفح اور غزہ والوں نے اندرون زمین سرنگیں بنانی شروع کردیں۔ کچھ سرنگیں رفح شہر کے کسی ایک گھر سے شروع ہوتی اور مصرکے سرحدی رفح شہر کے کسی ایک گھر میں ختم ہوتی تھیں۔ ان ہی سرنگوں کے ذریعے رفح اورغزہ والے اپنی ضرورت کی اشیاء لاتے اورلے جاتے تھے۔
سن 2023ء میں 7 اکتوبر کو شروع ہوئی اسرائیل-حماس جنگ کے دوران اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی پر بڑے پیمانے پر بمباری اور زمینی حملوں کے نتیجے میں تقریباً ڈیڑہ ملین فلسطینیوں کورفح میں پناہ لینا پڑا۔ غزہ میں جاری اسرائیل کی نسل کشی اورحالیہ دنوں میں رفح پر کی گئی بمباری کے خلاف سوشل میڈیا پر پھیلنے والی اس وائرل AI تصویر ’All Eyes on Rafa‘کوسوشیل میڈیا خصوصًا انسٹاگرام پر اب تک 47 ملین شیئرز حاصل ہوئے ہیں۔ رفح بمباری میں 45 افراد کو زندہ جلانے سمیت قتل عام کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے جاری ہیں۔ جنوبی افریقہ سمیت بہت سے ناقدین نے اسرائیل پر”نسل کشی“ کا الزام لگایا ہے اور جنوری میں اس جنگ کے حوالے سے اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت میں اسے گھسیٹا بھی ہے۔
یہ حملہ کب ہوا؟
ریوٹرز کی خبر کے مطابق، 26 مئی کو، رفح میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے کیمپ پر فضائی حملہ ہوا۔ اس سے پہلے حماس نے تل ابیب کے علاقے میں راکٹ داغے تھے۔ اس کی جوابی کارروائی میں اسرائیلی ایئر فورس نے تل السلطان رفیوجی کیمپ پر حملہ بول دیا۔ بم کے گرنے سے ’کویت پیس کیمپ‘ نامی کیمپ میں آگ لگ گئی جس میں 45 سے 50 کے قریب شہری جل کر شہید ہوگئے، جبکہ 200 سے زائد لوگ زخمی ہوئے جن میں کئی معصوم بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں۔ اس واقعے کے بعد، اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) نے ایکس (X) پر ایک پوسٹ شیئر کی اور لکھا: “غزہ زمین پر جہنم بن چکا ہے۔ خاندان جنگ سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے پناہ ڈھونڈ رہے ہیں، لیکن غزہ کی پٹی میں محفوظ جگہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کوئی بھی محفوظ نہیں؛ شہری نہیں، امدادی کارکن نہیں، کسی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ہمیں #جنگ بندی کی ضرورت ہے”۔ حماس کے زیر انتظام علاقے میں وزارت صحت نے کہا کہ حملوں میں ’35’ شہید اور درجنوں زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ حملے میں ’45‘ شہری مارے گئے۔ ایک بیان میں، اسرائیلی فوج نے کہا کہ یہ حملہ ’بین الاقوامی قانون کے تحت جائز اہداف‘ کے خلاف ’صحیح انٹیلی جنس‘ پر مبنی تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نے حماس کے دو’سینئر‘ عہدیداروں کو ہلاک کیا۔
رفح پریہ حملہ اقوام متحدہ (UN) کی ‘بین الاقوامی عدالت انصاف’ (آئی سی جے) کے فیصلے کے دو دن بعد ہوا، جہاں عدالت نے اسرائیل کو شہر پر حملہ روکنے کا حکم دیا۔ آئی سی جے کے صدر جج نواف سلام نے کہا کہ’ اسرائیل کو فوری طور پر رفح میں اپنی فوجی کارروائی اور کسی بھی دوسری کارروائی کو روکنا چاہیے جو فلسطینیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے یا اس سے کلی یا جزوی طور پر جسمانی تباہی کا باعث بن سکتی ہے”۔ اس فیصلے کو 15 میں سے 13 ججوں کی حمایت حاصل تھی۔
اس مہلک واقعے کے بعد، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اسے ایک ”افسوسناک حادثہ“ قرار دیا لیکن اسرائیلی پارلیمنٹ کو بتایا کہ اسرائیل کی دفاعی افواج (IDF) نے تنازع میں ملوث افراد کو نقصان نہ پہنچانے کے لیے اپنی بہترین کوششیں استعمال کیں۔ اس کے قریبی اتحادی امریکہ نے اس واقعے کے باوجود اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رفح کیمپ پر حملہ میں ’ریڈ لائن‘ سے تجاوز نہیں کیا گیا ہے۔
عالمی غم و غصہ
اس حملے کی خبر پھیلتے ہی پورے عالم میں غم و غصے لہر دوڑ گئی، بہت سے لوگوں نے اس کی مذمت کی اور کئیوں نے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ نیز حساس دل رکھنے والے لاکھوں لوگوں نے’سب کی نگاہیں رفح‘ کا یہ انقلابی جملہ شیئرکیا۔ اس عالمی سوشل میڈیا مہم، ’آل آئیز آن رفح‘ نے بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل کی ہے، جس میں متعدد مشہورسیاسی، مذہبی، فلمی شخصیات نے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی اور رفح کیمپ میں بے گھر فلسطینیوں پر تباہ کن حملے کی مذمت کی۔ اس مہم نے تشدد کے خلاف بڑے پیمانے پر ایک انقلابی آواز کو جنم دیا ہے، لوگوں نے فلسطینیوں کے ساتھ ’غیر انسانی سلوک‘ اور اسرائیل کی طرف سے غزہ میں زمینی کارروائی میں ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنے کے خلاف اپنی حمایت کا اظہار کیا۔
’سب کی نگاہیں رفح پر All Eyes on Rafah‘ کس نے پوسٹ کیا؟
ڈبلیو ایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر ریچرڈ پیپرکون نے سب سے پہلے یہ جملہ استعمال کیا تاکہ دنیا کی توجہ اسرائیل کے مظالم کی طرف مبذول کروائی جائے۔ ’All Eyes On Rafah یعنی سب کی نگاہیں رفح پر‘ لکھی اس اے آئی تصویرکے وائرل ہوتے ہی جمعرات کو اسرائیل بھی اپنے بین الاقوامی سطح پر جوابی پروپیگنڈہ کے ساتھ سامنے آیا، جس کا عنوان ’تمہاری آنکھیں دیکھنے میں ناکام رہی؟ Your Eyes Failed to See‘ اور ’7 اکتوبر کو تمہاری نگاہیں کہا ں تھیں؟ Where Were Your Eyes on 7th October‘ہے، ساتھ ہی اپنے متعدد سوشیل میڈیا پلیٹ فارمزپر حماس کے حملے کو لے کر جھوٹے پروپیگنڈے اور افواہیں پھیلانے لگا۔
بعدہ کئی لوگوں نے اس جملے کو پوسٹ کیا، جن میں ہندوستانی فلم فرٹنیٹی بالی ووڈ کی پریانکا چوپڑا، سونم کپور، سورا بھاسکر، دیا مرزا،ورون دھون، عالیہ بھٹ، سمانتھا روتھ پربھو، ترپتی ڈمری، اور ریچا چڈھا بالی ووڈ کی کئی نامور شخصیات نے بھی فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے وائرل ہیش ٹیگ شیئر کیا ہے۔ تاہم، کچھ مشہور شخصیات، جیسے مادھوری ڈکشٹ نینے، روہت شرما کی اہلیہ ریتیکا ساچدے نے عوام کی طرف سے ردعمل کا سامنا کرنے کے بعد اپنی پوسٹس کو فوری طور پر حذف کر دیا، جن میں سے کچھ نے تنازع میں اسرائیل کی حمایت بھی کی۔ 47 ملین سے زیادہ انسٹاگرام صارفین نے رفح کے تعلق سے اس جملے کے ساتھ انسٹا گرام اسٹوریز شیئر کی ہے۔
فلسطین۔اسرائیل جنگ کے دوران غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد
یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں کئی فراد ہلاک ہوئے اور کئی افراد کو یرغمال بھی بنایا گیا بعدہ نومبرمیں سیز فائر کے درمیان کئیوں کو رہا کردیا گیا تھا۔ پھر اس کے بعد ہونے والے اسرائیل کے جوابی حملوں نے لاکھوں فلسطینیوں اور غزہ واسیوں کی زندگی کو جہنم بناکر رکھ دیا۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں 36,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت معصوم و بے گناہ بچوں اور عورتوں کی ہیں، جبکہ تقریبًا پونے ایک لاکھ لوگ ابھی بھی زخمی ہے۔ گذشتہ چوبیس گھنٹے میں ہی تقریبًاسو فلسطینی شہید کیے گئے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ 10 ہزارکے قریب فلسطینیوں کو بھی اسرائیلی افواج نے یرغمال بنایا ہوا ہے جن میں سے تقریبًا ڈیڑھ ہزار فلسطینیوں کو نہایت ہی بے دردی سے قتل کردیا گیااور باقیوں کو ہنوز اذیت دی جارہی ہیں۔ مزید برآں، اب تک غزہ پٹی کے 2.3 ملین سے زائد شہریوں کی اکثریت بے گھر ہو چکی ہے۔ اس جنگ نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا اور ان میں سے بیشتر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ تاہم اسرائیلی ہلاکتیں محض 1000 اورکچھ ہیں اور درجن بھراسرائیلیوں کو یرغمال بناکر رکھا گیا ہے۔