(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)
معاشرے میں یہ منفی تاثر عام ملے گا کہ ’’مرشد کامل نہیں، یقین کامل ہوتا ہے‘‘ یعنی اگر آپ کو طریقہ علاج پر مکمل یقین ہے تو پھر ہی اس کی کرامات آپ پر ظاہر ہوں گی، ورنہ نہیں۔ لہٰذا شفا حاصل کرنے کےلیے ضروری ہے کہ اندھا اعتماد اور یقین کیا جائے کہ ہاں یہیں سے مجھے یا اس طریقہ علاج سے ہی مجھے شفا ملے گی یا من کی مراد پوری ہوگی تب ہی آپ فیض یاب ہوں گے۔ یہ ہے پلیسبو اثرات، Placebo Effects)) جن سے ہمارے معاشرے کے جعلی آستانے شب و روز کمائیوں میں مصروف ہیں اور عوام سے اندھا دھند فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اب یہ پلیسبوز ہیں کیا؟ سائنس کے میدان میں پلیسبو سے مراد وہ غیر فعال دوا یا مادہ ہوتا ہے جو محققین مطالعہ کے دوران استعمال کرتے ہیں تاکہ انہیں یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ کسی نئی دوا یا کسی دوسرے طریقہ علاج کا کسی خاص حالت پر کیا اثر ہوسکتا ہے۔
مثال کے طور پر، ایک مطالعہ میں کچھ لوگوں کو کولیسٹرول کو کم کرنے کےلیے ایک نئی دوا دی جاتی ہے اور دوسروں کو پلیسبو ملے گا، یعنی ایسی دوا جس میں کچھ بھی نہیں ہوتا، بس دوا کے نام پر کچھ بے ضرر ٹکیہ دے دی جاتی ہیں۔ لیکن تحقیق کے دوارن ان میں شامل لوگوں کو اس بات سے لاعلم رکھا جاتا ہے کہ آیا انہیں حقیقی علاج ملا یا پلیسبو۔ اس کے بعد محققین مطالعہ میں لوگوں پر دوا اور پلیسبو کے اثرات کا موازنہ کرتے ہیں۔ اس طرح وہ نئی دوا کی تاثیر کا تعین اور ضمنی اثرات کی جانچ کرسکتے ہیں۔ اور یہ ریسرچ سے ثابت ہوچکا ہے کہ زیادہ تر پلیسبوز کا نتیجہ حقیقی دواؤں کی طرح ہی ہوتا ہے یا اس کے قریب قریب، اس طرح سے یہ بھی ایک پراثر طریقہ علاج ہے۔
نفسیاتی سطح پر اس کا ایک کیمیکل اثر ہوتا ہے، کیونکہ پلیسبو مثبت سوچ سے زیادہ اثر کرتا ہے۔ لہٰذا یہ یقین کرلینا کہ یہ علاج یا طریقہ کار کام کرے گا تو یہ جسم کے ان خلیات کو متحرک کردیتا ہے جو جزوی طور پر کام نہیں کررہے ہوتے۔ کیونکہ پلیسبو دماغ اور جسم کے درمیان مضبوط کنکشن کا نام ہے۔ جب آپ کے دماغ کو یہ پیغام پہنچتا ہے کہ اس دوا کے یا اس تعویذ کے استعمال سے آپ مکمل شفایاب یا کامیاب ہوجائیں گے تو انسانی جسم میں یہ پیغام دماغ کے ذریعے ایسی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے جس کے نتائج بہت ہی کارآمد ہوتے ہیں۔ اس طرح سے یہ پلیسبو اثرات ایک ایسا نفسیاتی علاج ہے جو ڈپریشن، تناؤ کی مختلف کیفیات اور مختلف بیماریوں کو مکمل ختم کردیتا ہے، جس کا آغاز آپ کے مکمل اعتماد سے شروع ہوتا ہے۔
نفسیاتی بیماریاں چونکہ ذہنی دباؤ کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ایک نقطہ پر جاکر یہی ذہنی دباؤ جسمانی علامات کی صورت میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ہسٹیریا کا مرض جسے اب نفسیات کے شعبے میں ’’کنورژن ڈس آرڈر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کیونکہ اس میں ذہنی دباؤ جسمانی علامات میں تبدیل ہوجاتا ہے اور وہ علامات ہیں، اچانک سے گرجانا، ہاتھ اور پاوؤ کا مڑ جانا، سر کا پچھلی سمت میں کافی حد تک مڑ جانا، منہ سے جھاگ نکلنا اور عجیب آوازیں نکلنا شروع ہوجانا، چونکہ یہ سب غیر شعوری طور پر سرزد ہوتا ہے، لہٰذا اس دورانیہ میں مریض کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کررہا تھا۔ اب یہ شدید ڈپریشن کا نتیجہ ہوتا ہے اور چونکہ خواتین مردوں کی نسبت زیادہ حساس ہوتی ہیں اس لیے اس طرح کی علامات کا شکار بھی زیادہ ہوتی ہیں، جس کو آسیب اور جنوں سے جوڑ کر معاشرے میں موجود آستانوں کی چاندی کروائی جاتی ہے۔ ان کا پہلا قدم ہی مذہب کا حوالہ دینا اور اس کا استعمال ہوتا ہے۔ مذہب کے نام پر تو ہمارے آدھے سے زیادہ عوام ویسے ہی آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور یہ جاننے کی بالکل کوشش نہیں کرتے کہ مذہب کے نام پر کیا ہورہا ہے۔ لہٰذا وہ پلیسبو طریقہ علاج کے تحت اپنے سے ہی کوئی نام نہاد دم کیا ہوا پانی یا کوئی دیسی دوا مریض کو دیتے ہیں اور اسے پورا یقین دلایا جاتا ہے کہ ان کے استعمال سے وہ بالکل صحیح ہوجائے گا۔ ساتھ میں افراد خانہ کو اس کے ساتھ محتاط اور پہلے سے زیادہ مشفقانہ رویہ رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہی اسے اس ذہنی تناؤ سے کافی حد تک نکال لاتی ہیں اور پھر وہ جعلی پیر فقیر ’’مرشد کامل‘‘ کہلانے لگتا ہے۔
پلیسبو ایفیکٹ کے طریقہ علاج میں جعلی ادویات، تعویذ، گنڈے اور مختلف وظیفے اور ورد کرنے والے اور کروانے والے دونوں ہی کسی حد تک کامیاب ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ درحقیقت وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی انسانی جسم کو دی گئی اس خصوصیت کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ذہنی و جسمانی شفا کا باعث بنتا ہے۔
قرآن کریم بلاشبہ کتاب شفاء اور کتاب ہدایت ہے۔ وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ (بنی اسرائیل) کے تحت اس کتاب میں شفا اور رحمت ہے مومنین کےلیے۔ یعنی قرآنِ کریم کی حقیقی شفا تو روحانی امراض سے ہے۔ اس پیغام کتاب کو سمجھ کر پڑھنے سے ہی ہم اپنے اعتقادات کو درست سمت کرکے، اپنی روحانی بیماریوں سے شفا حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن جسمانی امراض کی بھی اس میں شفا موجود ہے اور وہ صرف اس صورت میں جو رسول اللہؐ کی صحیح احادیث سے ثابت ہیں، جیسا کہ آپؐ نے سورہ فاتحہ کو سورہ شفا فرمایا ہے۔
سورہ معوذتین (الفلق،الناس) کے بارے میں رسول اللہؐ سے ثابت ہے کہ آپؐ نے انہیں جادو، حسد وغیرہ کے توڑ میں موثر فرمایا، اور کچھ اور قرآنی آیات کے ورد کو بھی آپؐ نے جسمانی بیماریوں میں باعث شفا قرار دیا۔ لیکن یہ صرف آپؐ کی ذات تک تھا، کیونکہ رسولوں کو وحی کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ آپؐ کے بعد کوئی بھی اس منصب پر فائز نہیں کہ اپنے طور سے ہی مختلف قرآنی سورہ اور آیات کو طریقہ علاج کےلیے تجویز کرے۔ لیکن ہمارے ہاں قرآن کریم کے ساتھ اس انداز میں پیش آنے میں بہت زیادہ بے احتیاطی برتی جارہی ہے۔
ضرورت تو اس بات کی تھی کہ قرآن کریم کو پڑھ کر دل سے شرک کے زنگ اتارے جاتے، دل کو شرک کی بیماری سے پاک کیا جاتا اور شرک ہی تو وہ لاعلاج بیماری ہے جس کا علاج سوائے قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کے علاوہ اور کہیں نہیں. لیکن جس بیماری (شرک) کی شفا کےلیے یہ کلام پاک اتارا گیا تھا ہم مسلمانوں نے اس کو یکسر نظر انداز کردیا۔ اسی کتاب پاک کی آیات کو دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کےلیے استعمال کرتے ہوئے، آستانوں کے پھیرے اور نذرونیاز کے چکر میں پڑتے ہوئے مزید شرک میں ملوث ہوتے جارہے ہیں۔
بحیثیت مسلمان یقین کامل صرف خدائے واحد کی ذت کامل پر ہونا چاہیے اور اسی یقین کامل کے اثرات آپ کی شخصیت میں نظر آئیں گے پھر کوئی جن و انس آپ کو پریشان نہیں کرسکتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔