[ad_1]
جب ملک کا سسٹم عوامی مفادات کے بجائے خواص کے مفادات کا تحفظ کرے تو عوام کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی جب کہ طاقت ور گروہوں اور نوکرشاہی کا اتحاد ہونا فطری ہوتا ہے۔ پاکستان کا نظام اس کی بہترین مثال ہے۔
سیاست دان ، سول ملٹری بیوروکریسی ، ججز، کاروباری اورجبہ ودستار نے اس ریاستی نظام کی مدد سے خود کو حاکم اور عوام کو رعایا بنا دیا ہے ۔پورے ریاستی نظام کا بوجھ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت طاقت ور طبقات کے بجائے درمیانے کاروباری طبقے، تنخواہ داروں ، مزدوروں اور کسانوں پر ڈال دیا ہے ۔ ٹیکسوں کا یہ بوجھ یا لوگوں کو ٹیکس نیٹ کا حصہ یا ان کی شمولیت ایک بڑے دلدل کی حیثیت اختیار کرگئی ہے ۔ وہ لوگ جو ٹیکس نیٹ میں آنا چاہتے ہیں یا جن کو ٹیکس نیٹ میں زبردستی داخل کیا جارہا ہے ان کی زندگی کو جہنم بنانے کا کھیل عروج پر ہے ۔
حالیہ بجٹ میں جس بے دردی سے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں،اس سے نظام کی حقیقت واضع ہوجاتی ہے ۔خود حکومتی سطح پر اعتراف کیا جارہا ہے کہ عوام کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ حکمران طبقہ کی ترجیحات میں ہمیں آئی ایم ایف کی شرائط کی بات تو سمجھ میںآتی ہے مگر کیا آئی ایم ایف سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے ۔یہ جو معاشی بوجھ مختلف پالیسیوں کی بنیاد پر عام یا کمزور طبقوں پر ڈالا جاتا ہے اس سے طاقت ور حکمران طبقات اور اشرافیہ کو کیوں نظرانداز کیاجاتا ہے ۔کیا وجہ ہے کہ اس ملک کے طاقت ور سیاسی وغیر سیاسی افراد یا ادارے معاشی بوجھ کو اپنے اوپر لاگو کرنے کے لیے تیار نہیں،کیوں عوامی سطح پر یہ سوچ غالب ہو رہی ہے کہ عام آدمی سے جو ٹیکس لیا جاتا ہے اس سے طاقت ور طبقات کی عیاشیوں کو فائدہ پہنچانا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ بجٹ میں طاقت ور طبقہ کو مکمل تحفظ اور عام آدمی میںعدم تحفظ پیدا کیا گیا ہے ۔
موجودہ ریاستی و حکومتی نظام سے لوگوں کی معاشی مشکلات کم نہیں بلکہ زیادہ ہورہی ہیں ۔بظاہر یہ کہاجاتا ہے کہ جو بھی جمہوری یا سیاسی نظام ہوگا یا جو بھی ریاستی اقدامات ہونگے ان میں ’’ عوامی مفادات ‘‘ کو فوقیت ہوگی ۔لیکن حالات اس کے برعکس ہیں۔ طاقت ور حکمران طبقات سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں عوام مزاحمت نہیں کرتے کی ، ان کو طاقت کے زور پر دبانا آسان ہوتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ایسے برے سیاسی اور معاشی بدحالی کے حالات میں بھی ہمیں عوام میں کوئی منظم مزاحمت کا پہلو نظر نہیں آتا ۔ جومزاحمت ہے وہ انفرادی سطح پر ہے ۔
ان کے بقول انفرادی سطح سے اجتماعی مزاحمت کے امکانات محدود ہیں ۔ اسی بنیاد پر سمجھاجاتا ہے کہ طاقت ور حکمران طبقات کے فیصلوں پر ہمیں کچھ نہ کچھ احتجاج تو نظر آتا ہے مگر اس کے نتیجہ میں کوئی بڑی مثبت تبدیلی یا دباؤ کی سیاست کا غلبہ نظر نہیں آتا ۔ اسی بنیاد پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو کچھ عوامی مفادات کے برعکس ہورہا ہے وہ ہوتا ہی رہے گا اور طاقت ور حکمران طبقات عوام کے مفادات کو نظرانداز کرکے ان کا معاشی طور پر استحصال جاری رکھیں گے ۔
اس گٹھ جوڑ کے کھیل نے بہت سے سنجیدہ افراد میں بھی منفی سوالوں کو جنم دیا ہے ۔ اول، ہم ٹیکس نیٹ کا کیوں حصہ بنیں یا ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنے مالی اثاثے حکومت کے سامنے ظاہر کریں ۔کیوں نہ ہم بھی مجرمانہ طور پر کوشش کر کے ٹیکس نیٹ سے بھی بچیں ، چیک کے بجائے نقد رقم لیں ، اپنے اثاثے چھپائیں اور اگر یہ ممکن نہیں تو ہمیں اس ملک کو خیرآباد کہنا ہوگا یا پھر اس ملک میں جینے کو کسی بڑے مافیا کے ساتھ مل کر گٹھ جوڑ کی بنیاد پر حصہ دار بننا ہوگا۔لوگ ٹیکس دیتے ہیں اپنی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے لیکن یہاں ان پر ٹیکسوں کے نام پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔
لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنایاجا رہا ہے اور ان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ بھی خود غیر قانونی کام کریں اور ان کاموں کو ریاست سے چھپا کر جینے کی کوشش کریں ۔جب تک ٹیکس کی بنیاد کو عام آدمی کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے ساتھ نہیں جوڑا جائے گا منصفانہ معاشی نظام ممکن نہیں ۔ بڑے طاقت ور افراد کے مفادات کی بنیاد پر قائم نظام ریاستی نظام کی جڑوںکو کھوکھلا ہی کرے گا۔
یہ سوچ کہ عوام یہ سب کچھ برداشت کریںگے اور اس کی نتیجہ میں کسی بھی صورت میں بڑی عوامی مزاحمت اور طاقت افراد کو کسی بڑے دباؤ میں نہیں لاسکیں گا، غلط ہے ۔ دنیا میں تبدیلی کی لہریںاٹھ رہی ہیں اور لوگ اپنے اپنے نظاموں میں روایتی ، فرسودہ پرانے خیالات سمیت کرپشن ، حکمرانوں کی عیاشیوں اور غیر ضروری اخراجات میں کمی نہ کرنے یا حکومتی سائز کو کم نہ کرنے یا وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم یا بری طرز حکمرانی سمیت طاقت ورافراد کی حکمرانی کے نظام کو چیلنج کر رہے ہیں ۔
اس چیلنج میں انھوں نے روایتی اور رسمی میڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ وہ اب ڈیجیٹل دنیا پر بھاری ہیں اور انھوں نے حکومتی نظام پر سنجیدہ سوالات بھی اٹھائے ہیں۔آج ہر فرد اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھا رہا ہے ۔ ابھی لوگوں کا احتجاج سیاسی ،قانونی اور آئینی دائرہ کار میں ہے اورلوگ واقعی سیاسی حکمت عملی کے تحت ہی آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔لیکن شاید اس حکومتی نظام نے اپنی آنکھیں اورکانوں کو بند کیا ہوا ہے ۔ وہ لوگوں کی آوازوں کو سننے سے محروم ہیں یا سننا ہی نہیں چاہتے ۔لیکن یہ آنکھ مچولی کا کھیل کب تک جاری رہے گا۔
حکومتی نظام کو سمجھنا ہوگا کہ ابھی لوگوں نے اس نظام میں ڈنڈے کی بنیاد پر بغاوت نہیں کی ہے اور وہ بندوق کے بغیر مثبت تبدیلی کی اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی خواہش رکھتے ہیں لیکن یہ عوامی محاذ پر لاوا پک رہا ہے اور اپنے اندر لوگوںمیں غصہ ،نفرت، بغاوت کو پیدا بھی کررہا ہے ۔اس لیے لوگوں کو مجبور نہ کیاجائے کہ وہ ایسا راستہ اختیارکریں جو حکومتی نظام کو غیر قانونی حکمت عملیوں کی بنیاد پر چیلنج کرے ۔ ہمیں عام آدمی کے مسائل کو سننا ہوگا، سمجھنا ہوگا اور ان کی تکالیف کا اندازہ کرنا ہوگا اور اس پورے عمل میں حکومتی نظام کوان لوگوں کے ساتھ عملی بنیادوں پر کھڑا ہونا ہوگا، وگرنہ انتشار اور ٹکراؤ کا یہ کھیل پورے حکومتی نظام کو ہر محاذ پر چیلنج کرے گاجو یقینی طور پر نئے مسائل اور نئے انتشار کو جنم دے گا۔
[ad_2]