تعلیم انسان کی پہچان ہے۔ تعلیم سے انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے۔ علم انسان کا زیور ہے۔علم سے عزت ووقار حاصل ہوتا ہے۔ علم سے جہالت دور ہوتی ہے۔ علم در در کی ٹھوکروں سے بچاتا ہے۔ خود کی ترقی ہو یا پھر سماج کا بھلا سب علم سے کیا جا سکتا ہے۔ علم سے ہر کام ممکن ہے۔ علم ہی زندگی ہے۔ علم کا نہ ہونا موت کے برابر ہے۔ سیماب اکبر آبادی کہتے ہیں :
بے علم کا جینا بھی ہے اک قسم کا مرنا
جیسے تن بے روح جلا دو کہ دبا دو
مطالعہ علم حاصل کرنے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے ۔ ذاتی مطالعہ کے بے شمار فائدے ہیں۔ اچھی کتابیں پڑھنے سے طبیعت ہشاش بشاش رہتی ہے۔ مطالعہ کو روح کی غذاکہا گیا ہے۔ مطالعہ ذہن کو وسعت بخشتا ہے۔ زبان و بیان میں عمدگی لاتا ہے۔ خیالات میں پختگی پیدا کرتا ہے ۔ سوچ کو پاکیزگی عطا کرتا ہے۔ قلب کو سکون فراہم کرتا ہے۔
مطالعہ کرنے سے شخصیت پر کشش ہوتی ہے ۔
گفتگو میں نکھار آتا ہے ۔ باتوں میں وزن پیدا ہوتا ہے ۔ اداسی ختم ہوتی ہے ۔ اخلاق عمدہ ہوتے ہیں ۔ اچھی سمجھ آتی ہے ۔ بڑے چھوٹے کا علم ہوتا ہے ۔ اچھے برے کی تمیز آتی ہے۔صحیح غلط کا فرق معلوم ہوتا ہے ۔
علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ خود اعتمادی بڑھتی ہے ۔
ڈپریشن ختم ہوتا ہے ۔ امید جاگتی ہے ۔ مستقبل سنورتا ہے ۔ غرض یہ کہ جسم کی حیات، روح کی غذا، دماغ کی تندرستی، حافظے کی پختگی اور معاشرے کی بہتری مطالعہ میں ہے ۔
مطالعہ کے لئے اچھی کتاب کا ہونا بھی بہت ضروری ہے ۔ کیوں کہ ایک اچھی کتاب بہترین ساتھی ہے ۔ اور عمدہ کتاب سے بڑھ کرکچھ نہیں ہے۔ علامہ عبد الرحمن جامی فرماتے ہیں :
خوش تر ز کتاب در جہاں یاری نیست
در غم کدہ ء زمانہ غم خواری نیست
ہر لحظہ از وبہ گوشہ ء تنھایی
صدا راحتی ہست و ہرگز آزاری نیست
جس کا مفہوم ہے ( دنیا میں کتاب سے خوب تر کوئی یار اور غم کدہ زمانہ میں اس سے خوب تر کوئی غم خوار نہیں ہے گوشہ ء تنہائی میں ہر لحظہ اس سے سدا راحتیں ملتی ہیں لیکن ہرگز کوئی آزار نہیں ملتا.)
کہتے ہیں جو شخص اچھی کتاب کا صرف چھ منٹ مطالعہ کر لیتا ہے تو اس کا ذہنی دباؤ 70 فیصد کم ہوتا ہے ۔ مطالعہ کرنے سے دماغ کی ورزش ہوتی ہے ۔ ذہن روشن ہوتا ہے ۔ مقولہ ہے ” اگر چھری کو تیز کرنا ہوتو اس کو ریتی کے ساتھ لگاؤ اور اگر دماغ کو تیز کرنا ہے تو کتاب پڑھو ۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے: اچھی کتاب کا پڑھنا صحت مند ہے ۔ اس سے نیند بہت اچھی آتی ہے ۔ سونے سے قبل مطالعہ کرنا مفید ہے ۔ ایک امریکی ماہر تعلیم آسٹن فلیپس ( Austin Phelps) کا قول ہے :
Wear the old coat, Buy the new book.
پرانا کوٹ پہنو لیکن کتاب نئی ضرور خریدو ۔
آج ہم مطالعہ سے بہت دور ہو گئے ہیں ۔بالخصوص اردو کتابیں پڑھنے کے معاملے کافی پیچھے ہو رہے ہیں ۔ دنیا کے باقی ادب تو بہتر پوزیشن میں ہیں مگر اردو ادب کی حالت ٹھیک نہیں ہے ۔ مطالعہ ہماری پہچان ہوا کرتا تھا ۔ اب ہمارے شب وروز موبائل اور انٹرنیٹ کے نذر ہو گئے ہیں۔ ایک دور تھا جب ہمارے ننھے منے بچوں کے ہاتھوں میں کھلونا، پھول، پیام تعلیم اور امنگ وغیرہ جیسے رسالے ہوتے تھے۔ آج ان کی جگہ ویڈیو گیم ،موبائل، ٹیب اور لیپ ٹاپ نے لے لی ہے ۔ ہر گھر میں مذہبی کتابوں کے ساتھ اردو ادب کی کتابیں پائی جاتی تھیں ۔ لوگوں میں کتابیں خریدنے کاچلن تھا ۔ جو اب مفقود ہو رہا ہے ۔ پاکیزہ آنچل، مشرقی آنچل اور خاتون مشرق جیسے رسالے خواتین کے پسندیدہ میگزین تھے ۔ خط و کتابت کا دور دورہ تھا ۔ گھروں میں ادبی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ سیکڑوں اشعار زبان زد عام ہوا کرتے تھے ۔ شعر و شاعری کی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں ۔ بڑے بڑے قصیدے اور طویل طویل نظمیں یاد ہوتی تھیں ۔ عام گفتگو میں بھی ادب کی چاشنی پائی جاتی ۔ نپے تلے جملے کانوں میں رس گھولتے ۔ ادبی شہ پاروں پر چرچا ہوتا ۔ اخبار کی خبروں پر تبادلہ خیال ہوتا ۔ بچوں کو غلط تلفظ پر ٹوکا جاتا ۔ بول چال میں اردو محاورے اور کہاوتوں کا استعمال ہوتا ۔ سفر میں بھی کتاب ساتھ ہوتی ۔ اب یہ تمام باتیں قصہ پارینہ بن گئی ہیں ۔
اردو کتابوں کی خرید میں حد درجہ کمی آگئی ہے ۔ اردو کتابوں کی دکانیں بند ہو رہی ہیں ۔بعض بند ہونے کی کگار پر ہیں ۔ جو چل رہی ہیں وہ بھی خسارے میں ہیں ۔ چند روز قبل روزنامہ دی ہندو میں دلی کے مشہور و معروف چاندنی چوک میں واقع” اردو بازار ” کی خبر نظر سے گزری۔ مکتبہ جامعہ کے علی خسرو زیدی کا بیان ہے : یہ بازار کبھی اردو ادب کا گہوارہ تھا ۔ یہ جگہ اردو ادب کا فخر ہوا کرتی تھی ۔ یہاں اردو ادب کے مایہ ناز ادباء اور شعراء کا تانتا بندھاہوا ہوتا تھا ۔ لوگ جوق درجوق ادھر کا رخ کرتے تھے ۔ غزلیں، نظمیں ناول اور افسانوں کی کتابیں دھڑا دھڑ فروخت ہوتی تھیں ۔ خواتین کے رسائل کی مانگ ہوتی ۔بچے بوڑھے جوان مرد عورت ہر عمر کے افراد یہاں تشریف لاتے اور سب اپنے اپنے ذوق وشوق کے مطابق کتابیں خریدتے تھے ۔ اب یہ جگہ لذت کام ودہن کے لئے جانی جاتی ہے ۔ لوگ اردو کتاب کی بجائے طعام وشراب سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں ۔ ایک دکاندار نے کہا کہ اب یہ جگہ ” کھانا بازار ” (food market) میں بدل گئی ہے ۔
لاہور، پاکستان کے حالیہ کتاب میلے میں غیر متوقع طور پر کتابوں کے بجائے کھانے پینے کے اسٹالز توجہ کا مرکز بنے۔ جب کہ اس تقریب کا مقصد مطالعے اور ثقافت کو فروغ دینا تھا، صرف 35 کتابیں فروخت ہوئیں، لیکن حاضرین 1,200 شورمے اور 800 بریانی سے لطف اندوز ہوئے۔
خالد انعم نے ایک انسٹاگرام پوسٹ میں اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا کہ کس طرح کتاب میلہ ایک پکوان میلہ میں بدل گیا۔ تقریب کے مقصد کے باوجود، کھانے کے لیے ہجوم کی محبت نے ادب پر توجہ مرکوز نہ کی۔
مطالعہ کے کئی فائدے ہیں ۔ مطالعہ کی عادت ترقی کی ضامن ہے ۔ مطالعہ کسی بھی زبان کی کتابوں کا کیا جاسکتا ہے ۔ مگر مادری زبان کا مطالعہ سود مند ہوتا ہے ۔ جسے ہم بہتر سمجھ سکتے ہیں ۔ اردو صرف ایک زبان نہیں ہماری تہذیب ہے ۔ ہماری وراثت ہے ۔ ہمیں اس کے بقا کی فکر کرنی چاہیے ۔ ہمیں کسی زبان سے بیر نہیں ہے ۔ زبانیں تو ایک دوسرے کو جوڑنے کا کام کرتی ہیں ۔ انگریزی زبان کے اپنے فائدے ہیں ۔ اسے عالمی سطح پر بولا اور سمجھا جاتا ہے۔ اپنے نونہالوں کو انگریزی تعلیم دلانے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو گھروں میں اردو پڑھانے کا اہتمام کرنا اردو زبان کی ادنی خدمت ہوگی ۔ ایک ادنی محب اردو کی رائے ہے ۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف ۔