گزشتہ سے پیوستہ ہفتے کے دوران میں ملک کی پچانوے فی صد خواتین نے تو نہیں مگر ان کی اچھی خاصی تعداد نے ایک ہی سوال اس عاجز کو ارسال کردیا۔ ایک عزیزہ نے تو غالباً رومن رسم الخط میں اُردو لکھنے والوں سے انتقام لینے کی خاطر نستعلیق حروف میں یہ انگریزی بھی لکھ بھیجی کہ ’’پلیز ٹیل می واٹ اِز طاغوت؟‘‘
یہ موضوع توفضیلۃ الشیخ خلیل الرحمٰن صاحب چشتی کا ہے کہ جنھوں نے اِس موضوع پر ایک رسالہ بھی تحریر فرما رکھا ہے، مگر چشتی صاحب چوں کہ گزشتہ چند ماہ سے چند طاغوتی ممالک (کینیڈا، امریکہ وغیرہ)کا دورہ کرنے میں مصروف تھے تاکہ ’بچشمۂ خود‘ جانچ سکیں کہ ’ہاؤ اِز طاغوت ناؤ؟‘ چناں چہ اب یہ موضوع ہم ہی نبیڑیں گے کہ ہم اس وقت کسی دورے میں مصروف نہیں، فرصت سے لیٹے ہوئے ہیں۔
’طاغوت‘ کا لفظ، ممکن ہے کچھ لوگوں کے لیے اجنبی ہو، مگر اس لفظ کے چند رشتے دار الفاظ اُردو میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں مثلاً ’طُغیان‘ جس کے معنی ہیں زیادتی اور ظلم۔ جیسا کہ اپنے دل کی زیادتی اور ظلم کا بے دھیانی میں شکار ہوجانے پر حضرتِ ناظمؔ نالاں ہوئے:
تھا کسے دھیان کہ یہ ظلم یہ طغیاں ہو گا
دل سا جو دوست ہے وہ جان کا خواہاں ہو گا
’طغیان‘ کا لفظی مطلب ہے متعین حد سے تجاوز کرجانا یا حد سے گزر جانا۔ سرکشی اوربغاوت۔ پانی کا موجیں مارنا۔ سیلاب۔ دریا کا چڑھ جانا۔ بے قابو ہونا۔ اسی سے اہلِ فارس نے اسمِ صفت ’طُغیانی‘بنا لیا۔ اس صفت سے مولانا الطاف حسین حالیؔ نے فائدہ اُٹھایا اور فرمایا:
دریا کو اپنی موج کی طُغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
سرکش، نافرمان اور باغی شخص کو ’طاغی‘ کہا جاتا ہے۔ فرہنگِ آصفیہ میں ’طاغی‘ کا مطلب باغی اور سرکش کے علاوہ مفسد، سرغنہ اور بپھرا ہوا بھی درج ہے۔ جب کہ نوراللغات نے ’طاغی‘ کو سرکش ہونے کے ساتھ ساتھ مالک کا نافرمان بھی بتایا ہے۔ طاغ یا طاغی کی جمع طاغون اور طاغین ہے۔ حالاں کہ عموماً طاغی صاحبان ایک نیام، ایک کچھار یا ایک جنگل میں جمع نہیں ہوپاتے، باہم جنگ پر اُتر آتے ہیں۔
اب آئیے ذرا ان الفاظ کی بنیادیں کھوجی جائیں۔ بنیادی حروف ’ط، غ، و‘ ہیں۔ ان سے بننے والے الفاظ میں سے طغیٰ، اطغیٰ، یطغیٰ، تطغو، طاغیہ اور طغیان وغیرہ سے قارئینِ قرآن یقیناً مانوس ہوں گے۔ سورہ طٰہٰ کی آیت نمبر 43میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو یوں ہوتا ہے: ’’اِذْھَباَ اِلیٰ فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغیٰ‘‘۔ تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ، وہ سرکشی میں حد سے گزر گیا ہے۔ حد سے گزر جانے والے طاغی کو ’کثیر الطغیان‘ بھی کہا جاتا ہے۔ عربی میں ’طَغَی الماء‘ کا مطلب ہے پانی حد سے گزر گیا یعنی کناروں سے باہر آگیا۔ ’طَغَی البحر‘ کے معنی ہیں سمندر میں تلاطم پیداہو گیا یا طوفان آگیا۔ اور’طَغَی الموج‘ کا مطلب ہے موج میں طغیانی آگئی۔
’طاغوت‘ کے معنی ہیں: ہر حد سے تجاوز کر جانے والا۔ بدی اور شر کا سرغنہ۔ اسی وجہ سے شیطان اور معبودانِ باطل کا شمار بھی طاغوت میںکیا گیا کہ شیطان بھی اپنی حد سے تجاوز کرکے باہر نکل گیا تھا اور جن سرکشوں نے اللہ کے بندوں سے اپنی بندگی کروائی وہ بھی اپنی حد پھاند گئے۔ لفظ ’طاغوت‘ اسمِ مبالغہ ہے یعنی ’بہت بڑا سرکش، انتہائی سرکش، حد سے زیادہ سرکش‘۔ اس کی جمع طواغ اور طواغیت ہے۔
گویا جو بھی حدودِ بندگی سے باہر نکل گیا وہ ’طاغوت‘ ہے۔ جس نے اللہ کے سامنے سرکشی دکھائی وہ طاغوت ہے، جس نے زمین پرذاتی غلبہ حاصل کرنے اور اپنا قہر ڈھانے کی کوشش کی وہ ’طاغوت‘ ہے، اور جس نے اللہ کی حاکمیت کے مقابلے میں اپنی حاکمیت کا اعلان کیا وہ ’طاغوت ‘ہے۔ خواہ وہ کوئی فرد ہو، کوئی قوم ہو، کوئی ادارہ ہو، کوئی عدالت ہو، کوئی نظام ہو، کوئی نظریہ ہو یا کوئی ہدف۔ جولوگ طاغوت کے آگے سر جھکا دیتے ہیں وہ طاغوت کے بندے ہیں، چاہے بخوشی سرجھکائیں یا کسی دباؤ میں آکر۔
آیت الکرسی کے بعد والی آیت یعنی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 256میں ارشاد ہوتا ہے:
’’جو شخص طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔‘‘
یعنی اللہ پر ایمان لانے کے لیے طاغوت کی برتری کا انکار کرنا ضروری ہے کہ ’’لَا اِلٰہ‘‘۔ زمین پر خدا بن بیٹھنے والوں سے بغاوت، سرکشی اور اُن کو آقا ماننے سے انکار کردینا ہی اللہ پر ایمان کی طرف پہلا قدم ہے۔گویا توحید کا اقرار طاغوت کے انکار سے مشروط ہے۔
علامہ اقبالؔ نے ملک و ملت کے باغیوں اور سرکشوں کے لیے بھی ’طاغوت‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں فلکِ زُحل کی سیر کرتے ہوئے اقبالؔ نے اس فلک کو اُن ارواحِ رذیلہ کا مسکن قرار دیا جنھوں نے ملّت سے غداری کی اور اپنے چند ٹکوں کے فائدے کے لیے پوری قوم کو فروخت کردیا۔ اس غداری کے نتیجے میں قوم غلامی کی ایسی دلدل میں جا پھنسی کہ آج تک نکل نہیں پائی۔ اقبالؔ کہتے ہیں:
اندرونِ اُو دو طاغوتِ کہن
روحِ قومی کُشتہ از بہرِ دو تن
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ آدم، ننگِ دیں، ننگِ وطن
پہلے شعر کا مطلب ہے کہ اس کے اندر (یعنی فلکِ زحل کے اندر) دو پرانے طاغوت ہیں، ان دو جسموں کی خاطر پوری قوم کی روح کا کُشتہ بناکر رکھ دیا گیا۔ بنگال میں میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کی اور دکن میں میر صادق نے ٹیپو سلطان شہید سے۔ ان دونوں طواغیت نے ہمیں عالمی طاغوت کی غلامی کی زنجیروں میں اس طرح جکڑوا دیا کہ ہم اورہمارے حکمران زبان سے تو اللہ کی حاکمیت کا اقرار کرتے ہیں مگر عمل سے طاغوت ہی کی بندگی کا اظہارکرتے ہیں۔ مثلاً اللہ سُود کو جڑ سے مٹانے کا اعلان کرتا ہے (البقرہ آیت:276) لیکن طاغوت کے حکم پر سُود اور شرحِ سُود میں دن دُونا رات چوگنا اضافہ کر کرکے اللہ کے حکم کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں اور تمام حدیں پار کرتے ہوئے اللہ اور اُس کے رسولؐ سے جنگ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ قوم کا رزق، روزگار اور ملک کی معیشت بھیانک تباہی کی آگ میں جھونک دی گئی ہے۔ اب صرف ساہوکار کا ’سود‘ہے، باقی سب کا زیاں۔ عالمی سودی نظام آج سب سے بڑا طاغوت ہے۔
طاغوت کی کتنی قِسمیں اور کیا کیا شکلیں ہیں؟ یہ جاننا ہو تو چشتی صاحب کی کتاب ’’طاغوت‘‘ کا مطالعہ ضرور کیجیے۔ اس کتاب کا مطالعہ سب کو کرنا چاہیے، بالخصوص ملک کی پچانوے فی صد خواتین کو کہ اس بہانے ایک قرآنی اصطلاح سے آشنا ہوجانے کا موقع ملے گا۔
’طاغوت‘ کے تناظر میں خواتین کا خیال آیا تو ایک لطیفہ یاد آگیا۔ باپ نے اپنے بچے کو سمجھاتے ہوئے کہا: ’’بیٹیاں بہت معصوم ہوتی ہیں۔ بہنوں کو تنگ نہ کیا کرو۔‘‘ اس پر بچے نے معصومیت سے سوال کیا کہ ’’ابو! جب بیٹیاں اتنی معصوم ہوتی ہیں تو اس قدر خطرناک اور خوفناک بیویاں کہاں سے آجاتی ہیں؟‘‘ صاحبو! سچ پوچھیے تو ایسی بیویاں بھی کسی طاغوت سے کم نہیں۔ اس قسم کی ساری بیبیاں اکٹھا ہوجائیں تو ایک طاغوتی طاقت بن جاتی ہیں۔ پھر بڑی معصومیت سے ایک ایک سے پوچھتی پھرتی ہیں کہ ’’واٹ اِز طاغوت؟‘‘
سنا ہے کہ موجوں کی طغیانی کے مارے ہوئے ساحل نے کسی سیپی سے طاغوت کے معنی پوچھے۔ سیپی نے لاعلمی کا اظہار کیا تو ساحل بپھر گیا: ’’تم طاغوت کے معنی نہیں جانتیں؟ جاہل کہیں کی! تم نے آج تک طاغوت نہیں دیکھا؟اِدھر اُدھر کیا دیکھ رہی ہو؟ اِدھر دیکھو، میری طرف!‘‘