Site icon اردو

منی پور فساد:ذمہ دار کون؟

منی پور فساد:ذمہ دار کون؟

[ad_1]

منی پور فساد:ذمہ دار کون؟

          ایک وقت تھا جب منی پور میں لوگ امن و امان کی زندگی گزار رہے تھے۔ ایک عام شہری سے لے کر اعلی افسر تک اپنے روزمرہ کے کام میں مشغول تھا۔ اور اب حال یہ ہے کہ سڑکیں خالی پڑی ہیں۔ ساٹھ ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں،  زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے اور ۱۴۵ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اگر ملک میں کہیں بھی دو مختلف برادری میں جھڑپ ہو تو اس کا انجام کیا ہونے والا ہے یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ حکومت پوری طرح سے ان فسادات کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔  ظلم بالائے ظلم یہ کہ غیر ملکی تنظیموں نے جب اس مسلئے پر آواز اٹھائی اور نریندر مودی کو نشانہ بنایا تو انہیں بڑے تیکھے لفظوں میں جواب دیا گیا ہے کہ یہ ہمارا آپسی معاملہ ہے۔ اس بارے میں غیروں کو بولنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہی جواب جو ہر غلطی کے بعداپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے دیا جاتا ہے۔

          اب اس سے پہلے کہ اس حادثہ کی تفصیل میں جایا جائے ملک کے وزیر اعظم کے کچھ خیالات ملاحظہ فرمائیں۔ ۲۵ فروری ۲۰۱۷ کو دوبارہ الیکشن ہونے والے تھے اور اس وقت نریند ر مودی منی پور کی سر زمین پر جا کر منی پور کے لوگوں کے سامنے کچھ اس طرح کا بیان دیتے ہیں “کیونکہ آپ نے (کانگریس نے) صرف چناؤ جیتنے کے لیے یہاں کے سماجوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کر رکھ دیا ہے۔بھائی بھائی کو لڑا دیا آپ نے۔کیا راج نیتی اتنی نیچی استھر پر چلی گئی ہے؟ جس کو سماج کی پرو ہ نہ ہو دیش کی پروہ نہیں ہو، منی پور کی پروہ نہ ہو صرف اپنی کرسی کی پروہ ہو؟“ یہ لفظ ہیں خود مودی جی کے۔ اب سوال کئی ہیں۔ کیا راج نیتی سچ میں اس حد تک نیچے گر چکی ہے کہ حکومت کو اپنی کرسی کی پروہ ہے اور سماج کی یا لوگوں کی کوئی پروہ نہیں ہے؟ اب وہ کون ہے جس نے بھائی بھائی کو لڑا دیا ہے؟ اب وہ کون ہے جسے منی پور کی پروہ نہیں ہے؟ ان سوالوں سے بڑھ کر یہ بات کہ آخر حکومت اس معاملے پر اب تک خاموش کیوں ہے؟ اگر اس کی جگہ کوئی نئی ٹرین کو ہری جھنڈی دکھانی ہوتی تو مودی جی کے پاس وقت ہی وقت ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے عام باشندے اس نفرت کی آگ میں جل چکے ہیں ان کے لیے اب تک وزیر اعظم کے منہ سے ایک لفظ بھی کیوں نہیں نکلا ہے؟ کہیں بر سر ِ اقتدار حکومت خود ہی اس فساد کی پشت پناہی تو نہیں کر رہی؟

          تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایک عادل حکمران اپنی عوام کا حاکم نہیں بلکہ خادم بن کر جیتا ہے۔ اگر اس کی حکومت کو نوع انسانی کے عظیم دور میں گنا جاتا ہے تو وہ محض اس لیے کہ اس نے اپنی عوام کے لیے نیک کام کئے ہوتے ہیں اور بدلے میں اسے لوگوں کی دعائیں اور طویل عرصے کی حکومت ملتی ہے۔ اس کے بر عکس ایک ظالم اور لالچی حکمران بھی لمبے عرصے تک حکومت کرتا ہے، لیکن اس کی حکومت کمزوروں پر ظلم کر کے، بھائی بھائی کو آپس میں لڑا کر اور اپنے جابرانہ خیالات، لالچ اور گھمنڈ کی وجہ سے باقی ہوتی ہے۔ ایسے ہی حکمرانوں کی مثال ہے جنہیں ہم فرعون اور ہٹلر کے نام سے جانتے ہیں۔ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں بعید نہیں کے نریندر مودی کا نام بھی اس فہرست میں جوڑ دیا جائے۔

فساد کی وجہ اور پس منظر

          ۲۰ اپریل کو منی پور ہائی کورٹ کی جانب سے راجیہ سرکار کو یہ حکم جاری ہوتا ہے کہ وہ میتی لوگوں کو ایس ٹی کا درجہ دینے کے بارے میں سوچے۔ میتئی جو منی پور کی زیادہ تر سیٹیں ان کے پاس ہے اور انہیں کے لوگ حکومت میں موجود ہے۔ چونکہ م میتئی کی زیادہ تر آبادی امپھال کی وادی میں ہے اس لیے یہاں پر زیادہ تر م میتئی ہی سہولتیں اور سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھا پا رہے ہیں۔ ایسا کوکی لوگوں کا ماننا تھا اور بس اسی سبب سے وہ م میتئی لوگوں کو ایس ٹی کا درجہ دینے کے خلاف ہو گئے۔

          یہ بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ حکومت چلانے والے ہی یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں۔ بیرین سنگھ کی سرکار نے جنگلوں میں اگائے جا رہے افیم کا باغان پر کروائی کی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ لیکن پھر انہوں نے ان کے گھر توڑے اور انہیں اپنی زمین اور گھر سے بے گھر کیا گیا۔ کو کی لوگوں کا یہ مانناتھا کہ بیرین سنگھ کی سرکار صرف یکطرفہ کاروائی کر رہی ہے۔ ساتھ ہی جنگلوں میں رہ رہے کوکی لوگوں پر یہ بھی الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ میانمار سے بھاگے ہوئے ہیں جو کہ کسی حد تک سہی ہے لیکن یہ بات ہر کوکی کے لیے نہیں کہی جا سکتی۔

          ۲۷ اپریل کو بیرین سنگھ کو کوکی علاقہ بہول جراچن میں ایک gymکا افتتاح کرنا تھا۔ لیکن افتتاح سے ایک رات قبل اسے جلا دیا گیا۔ اس کے جواب میں چند علاقوں میں احتجاج شروع ہو گئے۔ لیکن حکومت نے اسے زور و زبردستی دبانے کی کوشش کی۔ اگراس وقت تک بھی حکومت یہ سمجھ جاتی کہ اس کی پالیسیاں کئی زندگیاں برداد کرنے والی ہیں تو شاید کچھ ہو سکتا۔ لیکن حکومت کے نشے میں چور حکمران اپنے خزانے بھرنے میں لگے تھے اور پھر وہ ہوا جس نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ۲۹ اپریل کو آل ٹرائبلس اسٹوڈنٹس آف منی پور نے میتی کو ایس ٹی کا درجہ ملنے کے خلاف احتجاج کیا اور جوابا م میتئی نے بھی ان کے خلاف کاروائی کی۔ یہ چھوٹی چھوٹی جھڑپیں فساد میں بدل گئی اور حکومت بھی منی پور کو جلنے سے بچانے میں ناکام رہی۔ ۶ مئی کوسرکار نے فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیا۔ لیکن ایک مہینے میں ساڑھے چار سو سے زائد گھر جل چکے تھے۔ ۱۵۰ سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں اور ساٹھ ہزار سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد بھی ان گنت ہے اور فساد رکنے کا نام نہیں لے رہا۔

          ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ افیم کے باغان کی حفاظت کے لیے کوکی لوگوں کے پاس پہلے سے ہی کافی ہتھیار تھے۔ اس کے علاوہ ان کا علاقہ سرحد سے ملا ہوا ہونے کی وجہ سے یہاں کافی امکان ہے کہ باہر سے بھی مدد جاری ہو۔ اس کے بر عکس میتئی جو کے وادی کے علاقہ میں رہتے ہیں انہوں نے متعدد پولیس اسٹیشنوں کو لوٹا، وہ ہتھیار ان کے پاس تھے جو کہ در اصل فوجیوں کے پاس ہونے چاہئے۔ دونوں فریق کے پاس ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہونے کی وجہ تھی۔ ایسے میں اگر یہ کہا جائے کے بی جے پی کی چانکیہ نیتی بھی کام نہ آئی تو شاید غلط نہ ہو گا۔ فساد کے درمیان حکومت یہ تو دعوی کرتی رہی کہ سب کچھ ہمارے قابو میں ہے اور گودی میڈیا کے دوغلے صحافی ہمیں یہ سمجھانے میں مصروف تھے کہ فرانس میں کس قدر فساد ہو رہا ہے۔

منی پور فسادات میں بھارتی میڈیا کا کردار

          اگر یہ کہا جائے کہ بھارتی میڈیا نے اس فساد پر کبھی چرچہ کیا ہی نہیں تو بھی غلط نہیں ہو گا۔ کیونکہ جو میڈیا کہیں پاکستان کے لمحہ لمحہ کے حالات بتا رہا تھا تو کہیں فرانس کے فساد یا یوکرین کی جنگ کو مودی جی کیسے ختم کریں گے یہ سمجھانے میں مصروف تھا۔ ملک کے کئی صحافیوں نے ان پر بات بھی کی ہے۔ ہر کسی نے کم از کم اس فساد کے بارے میں سنا ضرور ہے سوائے مودی جی کے جہیں یہ خبر شاید ستر دن بعد ملی۔ خیر ویسی بھی نہ وہاں فوٹو شو چل رہا تھا نہ ہی الیکشن۔ بہر حال اس موضوع پر کافی باتیں کرنی ہونگی اس لیے موضوع پر قائم رہنا  زیادہ مناسب ہو گا۔

          منی پور فسادات کے درمیان ایک نیوز اینکر امریکہ سے ہمیں یہ بتا رہا تھا کہ وہاں کی سبزیاں کتنی بڑی ہوتی ہیں ان کی دام کتنے ہوتے ہیں۔ ایک صحافی ہمیں یہ سمجھا رہا تھا کہ امریکہ میں مسافروں کو گھر کیسے ملتا ہے (بالکل کسی ولوگر کے انداز میں)۔ اسی درمیان ایک مرتبہ شاید حکم ہوا اور سارا گودی میڈیا فلم آدی پرش کا ڈائلاگ لکھنے والے منوج منتشر شکلا کی صفائی دنیا کو سمجھانے لگا۔ اس وقت بھی ہمیں یہ سمجھایا جا رہا تھا کہ فلم تو انہوں نے اچھی بنائی ہے اب اگر ہمیں پسند نہیں آ رہی تو اس میں عوام کی ہی غلطی ہے۔ نہ صرف غلطی ہے بلکہ عوام اس سر نو ملک کی دشمن اور غدار بھی ہے۔ کیونکہ اس فلم کی پشت پناہی بی جے پی کے کئی نامور وزراء کر رہے تھے۔

میتئی اور کوکی لوگوں میں کیا فرق ہے؟

          میتئی در اصل صرف ایک فرقہ کا نام نہیں ہے۔ اس میں تقریبا تیس سے چالیس مختلف طبقہ کے لوگ ہیں۔ انہیں کو اصل اور قدیم منی پور کے واسی کہا جاتا ہے۔ میتئی لوگوں کی زیادہ تر آبادی وادی میں رہتی ہے۔ یہیں امپھال بھی واقع ہے۔ اور دیگر سرکاری اسکیموں کا فائدہ بھی انہیں لوگوں کو ملتا ہے۔ وادی میں زمین اگجاؤ ہے اور اسی لیے قدیم زمانے سے لوگ اسی علاقے میں رہنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ جبکہ منی پور کا صرف دس فیصد علاقہ وادی کا حصہ ہے اور یہاں کل آبادی کے ساٹھ فیصد لوگ رہتے ہیں۔ یہیں پر کچھ ہندو اور مسلم بھی آباد ہیں جو نہ کہ م میتئی ہیں نہ ہی کوکی۔  میتئی دوسروں کی بہ نسبت زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اور حکومت میں ساٹھ میں سے چالیس پر ان کا قبضہ ہے۔

          کوکی وہ لوگ ہیں جو وادی کے علاوہ دوسرے پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر لوگ نچلے طبقے سے ہیں اور ایسا بھی مانا جاتا ہے کہ سرحد کے قریب ہونے سے یہاں غیر ملکیوں کئی بار آتے جاتے رہے ہیں۔ اسی طرح افیم کی کاشتکاری کو بھی فروغ ملا۔ کوکی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہی جو قدیم زمانے سے انہی پہاڑیوں میں آباد ہے۔

          دونوں طبقوں کو اپنی اپنی زمینیں کھودینے کا ڈر ہے۔ فریقین نے ہتھیار بھی اٹھایا ہے اسی ڈر سے کہ حکومت کس کے حق میں ہے یہ نہیں جانتے۔ اور ملک کی عوام کو شاید دھیرے دھیرے یہ بات سمجھ میں آجائے کہ مودی حکومت صرف اپنی کرسی کے حق میں ہے۔ اس سے بڑھ کر نہ ہی انسان کی جان اہمیت رکھتی ہے نہ ان کا ایمان۔ مبارک ہو۔ نئے بھارت میں آپ کا استقبال ہے۔

[ad_2]

Source link

Exit mobile version