[ad_1]
فسادات کی کہانی فسادات کی زبانی
مناظر آج بھی چبھتے ہیں آنکھوں میں فسادوں کے
ابھی تک میں فسادوں کی چبھن محسوس کرتا ہوں
میرا نام فساد ہے اور بارہا لوگ مجھے دنگے فساد کے نام سے بھی جانتے اور پہنچانتے ہیں۔دنیا کی بیشتر زبانوں میں میرے لیے مخصوص اور مختلف الفاظ پائے جاتے ہیں اور تقریباً تقریباً وجود عالم سے آج تک میں دنیا کی ساری قوموں میں پایا گیا ہوں۔ میرا استعمال کرنا تو کئی اقوام کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔مگر اس بات کو میں بڑے دعوے کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ ابتدائے آفرینش سے الی یومنا ہذا میرا تصوّر و استعمال کسی ایک قوم سے محدود نہیں رہا۔ ہابيل و قابیل کی آپسی رنجش بھی میرا ہی حصہ رہی اور آج تک میں پھلا پھولا ہوں اور اپنا کام مکمل دل لگی کے ساتھ ادا کر رہا ہوں۔ یاد رکھیں کہ تاریخ کے اوراق میں میری کئی اقسام موجود ہیں کبھی میں نے وقت واحد میں قوم واحد کو نشانہ بنا کر اسے تباہ و برباد کردیا تو کبھی سارے کے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کبھی میں قتل و غارتگری کی صورت میں رونما ہوتا ہوں تو کبھی میں تشدّد و فرقہ پرستی کا روپ اپنا لیتا ہوں۔ جی ہاں! میں ہی تو وہ ہوں جو انسان کو انسان کے سامنے لاکر کھڑا کردیتا ہے اور ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیتا ہے اور میرا تو عظیم کارنامہ یہ بھی رہا ہے کہ میں نے سینکڑوں مقامات پر بھائی کو بھائی اور فرزند کو والد کے مد مقابل لاکر کھڑا کیا ہے۔ تاریخ کی سیاہی اور سرخی کے پیچھے جو راز مخفی ہے وہ مخفی راز میں ہی ہوں۔ میں مذہبی منافرت کے لیے استعمال کیا گیا ذاتی مفاد کے لیے بھی مجھ سے کام لیا گیا اور میں تو وہ بدبخت ہوں کہ میرے رہتے بنت حوا کی عزت و عصمت کو بھی تار تار کیا گیا۔ اقوام عالم کی تلخ یادیں، تاریخ کے سیاہ پنّے اور مظلوم انسانیت کی آہ و فغاں نالہ و بکا میری موجودگی کی زندہ دلیلیں ہیں۔ میں ببانگ دہل اعلان کرتا ہوں کہ میرا مقصد و محور کبھی کسی ایک قوم تک محدود نہیں ہے بلکہ میں تو بلا تفریق مذہب و ملت اور قوم و وطن کی حدود سے پرے ہر کسی کو اپنا نشانہ بناتا آیا ہوں۔ پر سچ کہوں تو آج تک میرے وجود سے کسی بھی منفعت کی اُمید رکھنا غلط ہی ٹہرا ہے کیونکہ میرا تو وجود ہی مبنی بر نقصان ہے تو بھلا مجھ سے یہ توقع کہ میں آپکے کام آجاؤں یہ بیوقوفی اور جہالت ہے۔ یاد نہیں کہ زبان اردو کے نامور شاعر ساحر لدھیانوی نے میری ایک قسم جسے دنیا “جنگ” کے نام سے جانتی ہے اسکے متعلق کیا کہا تھا
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
اپنی مشہور زمانہ نظم میں جنگ کے نقصانات کا برملا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
ہاں میرا نام فساد ہے اور میری تاریخ کافی طویل رہی اور خون ریز بھی۔ میری تعریف میں اس سے بڑھ کر بھی کیا کہا جاسکتا ہے کہ میں تباہی و بربادی کی علامت اور قتل و غارت گیری کا زندہ و پائندہ نشان ہوں۔ پر ایک بات جو مجھے کافی زیادہ پریشان کر رہی ہی وہ یہ ہے کہ ملک ہندوستان میں جو میرا بیجا استعمال ہو رہا ہے وہ میرے لیے بہت ہی زیادہ تکلیف و عار کا باعث ہے۔ کس طرح مخصوص قوم کو میرے ذریعے ایذارسانی کی جا رہی ہے اور قوم بھی وہ کہ جس نے دنیا کو امن و سلامتی کا سبق دیا اور اقوام عالم کو محبت و الفت کا گہوارہ بنا دیا پر آج اسی امن پسند قوم کو شرپسند عناصر میرے استعمال سے تکلیف پہنچا رہے ہیں اور سب جانتے ہوئے بھی میں اس امن پسند قوم کی مدد و حمایت کرنے سے قاصر ہوں۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ دنیا کی آبادی کے ۷ کھرب لوگ میری روک تھام کے لیے کسی بہترین تدبیر و نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں اور میں آج تک وقتاً فوقتاً لوگوں کو نقصان پہنچانے کا کام فیروز مندی اور فخریہ انداز میں سر انجام دیتا آیا ہوں۔ لیکن جس درندگی اور بیہودگی سے میرا استعمال سر زمین ہند پر گذشتہ کئی سالوں سے ہو رہا ہے اسکی نظیر تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ وہ مذموم افعال نا قابلِ قبول نا قابلِ فراموش ہے۔ ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات و سانحات میرے ذریعے سے عمل درآمد ہوئے کہ اب تو مجھے اپنے وجود پر شرمندگی محسوس ہونے لگی ہے اور کہیں نہ کہیں اپنے آپ پر گھین آنے لگی ہے۔
میری اس مختصر سی کہانی کا خلاصہ میں بطور گزارش پیش کرونگا کہ بس کردو اب نہ کرو میرا استعمال کہیں ایسا نا ہو کہ آپ خود کسی روز میری ضد میں آجاؤ اور آپکا انجام بھی بہت برا ہو جائے۔ میں خود بزبان حال کہ رہا ہوں کے میرے استعمال سے آج تک نہ کسی کو فائدہ ہوا ہے اور نہ ہی صبح قیامت تک کوئی مجھ سے منفعت کی امید لگائے کیونکہ میرا تو وجود ہی بر سر نقصان ہے۔ میں نے بہت ہی برے کام سر انجام دیئے ہیں پر اب مجھے لگتا ہے کہ مجھے خدا کے ذکر کردہ” توبۃ النصوحة” سے دامن گیر ہوجانا چاہیے اور اپنے ماضی سے توبہ کرکے مستقبل اور آخرت کو سنوارنے پر توجہ دینی چائیے۔ آپ بھی برائے کرم خود بھی مجھ سے اور میرے شر سے محفوظ رہیں اور مجھے بھی اپنے پراگندہ ذہنیت سے مامون رکھیں۔ انسانیت کا درس عام کریں محبت کا پیغام پھیلائیں امن و آشتی کا علم لہرائیں اخوت و بھائی چارگی اور مذہب و اقدار کا دامن مضبوطی سے تھام لیں اور مظلوم قومیں بھی خدا کی رسّی کو اپنی نجات کا وسیلہ بنائیں۔
آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ افلاس اور غلامی سے
امن بہتر نظام کی خاطر
جنگ بھٹکی ہوئی قیادت سے
امن بے بس عوام کی خاطر
جنگ سرمائے کے تسلط سے
امن جمہور کی خوشی کے لیے
جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن پر امن زندگی کے لیے
مولا کریم اس پتھروں سے پر دنیا میں پھولوں کی برسات کا نزول فرمائے۔ ہم سب کو آپسی رنجش و اختلافات کا خاتمہ کرکے پر سکون زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یارب العالمین۔
[ad_2]
Source link