خلاصۂ کلام : (۱) بعض محدثین کرام نے فرمایا : لم اقف علیہ ‘‘ اور یہ محدثین ان میں سے ہیں جن کو حدیث اور علوم حدیث میں درک حاصل تھا مثلاامام المحدثین ابن حجر عسقلانی اور امام جلال الدین سیوطی رحمہما اللہ تعالی وغیرہما۔ اور ایسے محدثین اس طرح کا قول کریں تو ان کے قور پر اعتماد کرکے حدیث کے موجود ہونے کی نفی کر دی جاتی ہے، لہذا یہ حدیث قائدہ کے مطابق موضوع ہوگی۔
(۲) بعض محدثین عظام نے فر مایا : ’’لا أصل لہ عند الحفاظ ‘‘ اس کا مطلب یہاں پر یہ ہے کہ اس حدیث کی کوئی سند نہیں اورجس حدیث کی کوئی سند نہ ہومحدثین کے نزدیک اس کا کوئی اعتبار نہیں ۔
(۳) بعض اہل فن نے فرمایا : حب الوطن۔۔۔۔۔۔۔یہ حدیث موضوع ہے اور بعض نے فرمایا: یہ حدیث ہی نہیں ہے ،اور بعض نے کہا: زمانہ ماضی کے کسی شیخ کا قول ہے۔ ان سب کا معنی یہی ہے کہ یہ حضور ﷺ کا قول نہیں ہے ۔
(۴) بعض علمائے حدیث نے فرمایا: حب الوطن ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حدیث کا معنی صحیح ہے۔ مگر علمائے کرام نے ان کے قول کو رد کر دیا جیسا کہ امام ملا علی قاری اورعلامہ منوفی رحمہما اللہ وغیرہما کا رد اس حدیث کے معنی صحیح کہنے والوں پر گزرا ۔
(۵) علمائے محدثین متفق ہیں کہ یہ حدیث ’’حب الوطن من الایمان ‘‘ ان الفاظ کی ساتھ موضوع ہے ۔
حدیث کا حکم: ان تمام اقوال کی روشنی میں اس حدیث کا حکم بیان کرنے کے لئے اس نتیجہ پر پہونچا ہوں کہ ’’حب الوطن من الایمان‘‘ ان الفاظ کے ساتھ کسی حدیث کا وجود نہیں، لہذا یہ حدیث موضوع ہے۔ کیونکہ جمہور علمائے حدیث کی آراء واقوال سے یہی ظاہروباہر ہے۔ نیز اس کا معنی بھی درست نہیں کیونکہ وطن کی محبت اور ایمان کے درمیان تلازم نہیں جیسا کہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے فرمایا، اور یہی میری ناقص رائے میں راجح اور درست ہے۔ لہذا اس حدیث کو حب وطن پر حجت بنا کر پیش نہیں کرنا چاہئے ۔
نیز وطن سے محبت کرنے پر دلالت کرنے والی اس موضوع حدیث ’’حب الوطن ‘‘ ۔۔۔کے علاوہ بعض صحیح یا اس باب مین قابل احتجاج حدیثیں موجود ہیں جو وطن کو محبوب رکھنے پر دلالت کرتی ہیں، لہذا موضوع حدیث کو استدلال میں بیش کرنے کے بجائے انہیں قابل قبول احادیث کو بیان کیا جائے ، ان میں سے بعض کا ذکر کرتا ہوں:
بخاری شریف کی حدیث ہے : حدثنا سعید بن ابی مریم قال أخبرنا محمد بن جعفر قال أخبرنی حمید أنہ سمع أنسا رضی اللہ تعالیٰ عنہ یقول: کان رسول اللہ اذا قدم من سفر فأبصر درجات المدینۃ أوضع ناقتہ و ان کانت دابۃ حرکھا۔۔۔۔۔وفیہ دلالۃ علی فضل المدینۃ وعلی مشروعیۃ حب الوطن والحنۃ الیہ ۔
ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب حضور نبی کریم ﷺ کسی سفر سے آتے تو مدینہ شریف کی اونچی سڑکیں اور منزلیں دیکھ کر خوش ہوتے اور اونٹنی تیزی سے اس کی طرف دوڑا دیتے تھے ، اور اگر کوئی دوسرا جانور ہوتا تو اس کو حرکت دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ بدر الدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث میں مدینہ شریف کی فضیلت اور وطن سے محبت کے جواز پر واضح دلالت ہے ۔(۳۶)
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے : حدثنا ابی حدثنا ابن ابی عمیرقال : قال سفیان فسمعناہ عن مقاتل منذ سبعین سنۃ عن الضحاک قال : لما خرج النبی ﷺ من مکۃ فبلغ الجحفۃ اشتاق الی مکۃ ، فانزل اللہ تبارک و تعالیٰ علیہ القرآن (رادک الی معاد) الی مکۃ ۔
ترجمہ : ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب حضور نبی کریم ﷺ مکہ سے نکلے اور مکان جحفہ پہونچے تو آپ کو مکہ شریف کی جانب رغبت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی ’’ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد‘‘ (۳۷)ترجمہ: (بیشک جس نے تم پر قرآن فرض کیا وہ تمھیں پھیر جائے گا جہاں پھرنا چاہتے ہو ۔ یعنی مکہ کی طرف)(۳۸)
تیسری حدیث میں ہے : عن ابن شھاب قال قدم أصیل الغفاری قبل ان یضرب الحجاب علی أزواج النبی ﷺ فدخل علی عائشۃ رضی اللہ عنھا ، فقالت لہ : یا أصیل کیف عھدت مکۃ قال: قدأخصب جنابھا ، وابیضت بطحائہا قالت : أقم حتی یا تیک النبی ﷺ فلم یلبث أن دخل النبی ﷺ فقال لہ یاأصیل کیف عھدت مکۃ قال: واللہ عھدتھا قد أخصب جنابھا وابیضت بطحا ؤھا و أغدق اذ خرھا وأسلت ثمامھا و أمش سلمھا فقال : حسبک یاأصیل لا تحزنا ۔ أمش سلمھا : یعنی نوامیہ الرخصۃ التی فی الطراف اغصانہ الا ذ خر: حشیشۃ
طیبۃ الرائحۃ تسقف بھا البیوت فوق الخشب۔
ابن شھاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: أصیل غفاری رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی ازواج مطہرات پر حجاب فرض ہونے سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس تشریف لائے توآپ نے أصیل غفاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا مکہ کو کیسا پایا تو آپ نے بعض اوصاف بیان فرمایا ، پھر حضور ﷺ آئے اور آپ نے بھی پوچھا کہ مکہ کو تم نے کیسا پایا تو آپ نے کچھ اوصاف بیان کئے توآپ دل برداشتہ ہوئے اور فرمایا : اصیل بس کرو ہمیں مکہ شریف کے اوصاف بیان کر کے غمزدہ نہ کرو (۳۹)
ان احادیث سے پتہ چلا کہ وطن سے محبت کرنا درست ہے ، البتہ یہ محبت و چاہت ایمان کی علامت نہیں جیسا کہ حدیث ’’حب الوطن ۔۔ کے معنی کو صحیح ماننے سے لازم آتا ہے۔ کیونکہ وطن سے محبت اور ایمان کے درمیان تلازم نہیں،ایسا ہوسکتا ہے کہ وطن سے محبت ہو مگر ایمان کا وجود نہ ہو، جیسا کہ کفارو مشرکین کو وطن سے محبت ہوتی ہے مگر یہ محبت ایمان سے خالی و عاری ہوتی ہے، لہذا شریعت اسلامیہ میں وطن سے محبت کی سماحت ہے مگر یہ محبت ایمان کی علامت ہو۔ اس طور سے کہ جہاں جہاں وطن سے محبت پائی جائے وہاں وہاں ایمان کا وجود ہو۔ ایسا نہیں ہے۔
(۱)(نزھۃ النظر فی شرح نخبۃ الفکر لابن حجر العسقلانی ص۳۱ تحقیق: حمدی الدمرداش، مکتبۃ نزار مصطفی الباز ،الریاض)
(۲)( التحقیق والایضاح لمحمد ابو عمارۃ ص ۴۵۔۴۸)
(۳)( نزھۃ النظرشرح نخبۃ الفکر ص ۳۲)
(۴)(تدریب الراوی لجلال الدین السیوطی ص ۴۴۳۔۴۴۹، تحقیق: محمد ایمن بن عبدا للہ ، مطبع دار الحدیث)
(۵) (فتح المغیث للسخاوی ج ۳ص ۳۵، تحقیق: مجدی فتحی السید ،المکتبۃ التوفیقیۃ)
(۶)(الدرر المنتثرۃ فی الأحادیث المشتھرۃ لجلال الدین السیوطی ج۱ص۹)
(۷)( الؤلؤ المرصوع فیما لاأصل لہ او باصلہ موضوع للقاوقجی ص۷۲، تحقیق: فواز احمد زبیرلی ، مطبع : دار البشائر الاسلامیۃ)
(۸)(الفوائد الموضوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ لمرعی بن یوسف الکرمی ص ۱۰۳، تحقیق: محمد الصباع)
(۹)(النخبۃ البھیۃ فی الاحادیث المکذوبۃ للأمیر المالکی ج۱ص۵۲)
(۱۰)(الغماز علی اللمازفی الموضوعات المشہورات للسمہودی ص:۹۷ تحقیق: محمد عبد القادر العطار مطبع:دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
(۱۱)( مختصر المقاصد الحسنۃ للزرقانی ص:۱۱۱ تحقیق: محمد الصباغ المکتب الاسلامی بیروت)
(۱۲)(تدریب الراوی ، النوع الثا نی والعشرون ص۲۵۷)
(۱۳)( نفس المرجع النوع الحادی والعشرون ص ۲۴۱)
(۱۴)( تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق الکتانی ج۱ص۱۳)(مقدمۃ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع للملاعلی القاری ص ۲۵۔۲۷۔۳۸۔۴۲۔ مطبع مکتب المطبوعات الاسلامیۃ )
(۱۵) (المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع ص۹۱)
(۱۶)(التہانی فی التعقیب علی موضوعات الصغانی لعبد العزیز ص۶۵ مطبع:دار الأنصار بالقاہرۃ)
(۱۷)(تدریب الراوی ، النوع الثانی والعشرون ص ۲۵۷)
(۱۸)(مقدمۃ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع )
(۱۹)(نفس المرجع)
(۲۰)(تھذیب التذھیب لابن حجر ج ۱۱ص ۴۷کا دار الفکر)(میزان الاعتدال للذہبی ج۴ص۳۰۲)مطبع: دار المعرفۃ لبنان)
(۲۱)(مقدمۃ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع‘‘ ص۱۷۔۲۳)
(۲۲)(موضوعات الصغانی ص۴۷، تحقیق: نجم عبد الرحمن خلف)
(۲۳)(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح للملا علی القاری، ج۵ص۳۱۶)
(۲۴)(أسنی المطالب فی أحادیث مختلفۃ المراتب للحوت ص۹۵،مطبع: المکبتۃ التجاریۃ الکبریٰ ،مصر)
(۲۵)(الجد الحثیث فی بیان ما لیس بحدیث للعامری ، ج۱،ص۸۵) أصل
(۲۶)(الاسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ للملا علی القاری ص۱۸۰تحقیق: محمد الصباغ مطبع: دار الامانۃ بیروت )
(۲۷)(المقاصد الحسنۃ ص۱۸۳تحقیق: عبد اللہ محمد الصدیق ، مطبع : مکتبۃ الخانجی ، مصر)
(۲۸)(تمییز الطیب من الخبیث للشیبانی الشافعی ص۶۸:دار الکتب العربی بیروت)
(۲۹)(تذکرۃ الموضوعات للفتنی ، ص۱۱،کتاب التوحید، مطبع دار احیاء التراث العربی، لبنان )
(۳۰)(کنز الایمان ، جزئ۵، سورۃ النساء ، آیۃ ۶۶)
(۳۱)(کنز الایمان ، جزء ۲، سورۃ البقرۃ ، ۲۔ آیۃ ۲۴۶)
(۳۲)(کشف الخفاء و مزیل الالباس عما اشتھر من الاحادیث علی ألسنۃ الناس للعجلونی، ج۱ص ۴۱۴، تحقیق: أحمد القلاش ، مطبع : دار التراث ، مصر)
(۳۳)( الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ ص۱۸۰)
(۳۴)(التھانی علی موضوعات الصغانی،ص۵۶)
(۳۵)قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث لمحمد جمال الدین القاسمی،ص۱۶۱،دار النفائس، بیروت۔
(۳۶)عمدۃ القاری للعینی، باب من اسرع ناقتہ اذا بلغ المدینۃ، ج۱۵ص۴۳۹)
(۳۷)( تفسیر ابن ابی حاتم، قولہ تعالیٰ: رادک الی معاد، ج ۹سورۃ القصص ص: ۳۰۲۶)
(۳۸)(کنز العما ل جزئ۲۰ سورۃ القصص ۲۸، آیۃ ۸۵)
(۳۹)(أخبار مکۃ وما جاء فیھا من الآثار لابی الولید محمد بن عبد اللہ الازرقی ، تذکر النبی ﷺ و أصحابہ مکۃ،ج۲ص۱۵۵، دار الاندلس بیروت)