کراچی: گزشتہ مالی سال میں پاکستان کی معیشت کی بحالی میں زرعی شعبے نے اہم کردار ادا کیا، لیکن رواں سیزن کی تباہ کن مون سون بارشوں، سیلابی صورتحال اور ناقص حکومتی پالیسیوں نے ذرعی معیشت کو سست کردیا ہے، جس کے معیشت پر مجموعی طور پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ سال گندم کی بھرپور پیداوار ہوئی لیکن پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری نہ کرنے کی وجہ سے کسان کو نقصان ہوا اور ان کو کم قیمت پر گندم فروخت کرنا پڑی، اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کسان اب رواں سیزن میں گندم کی کاشت کرنے سے کترا رہے ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے ذرعی ماہر سونو کھنگرام نے کہا کہ آنے والے سیزن میں کاشتکار گندم کی کاشت میں 10 سے 20 فیصد تک کمی کریں گے اور دیگر نقد آور فصلوں کو ترجیح دیں گے، دوسری طرف کاشت کے وقت پانی کی عدم فراہمی اور زیادہ درجہ حرارت نے کپاس کی فصل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اور رواں سیزن میں کپاس کی پیداوار توقع سے کم رہی ہے، رواں سیزن کے پہلے دو ماہ کے دوران کپاس کی پیداوار میں 60 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور کپاس کی پیدوار 1.22 ملین گانٹھیں رہی ہیں، جو کہ گزشتہ سال 3.04 ملین گانٹھیں تھیں۔
ادھر بھارت نے عالمی مارکیٹ میں چاول کی ایکسپورٹ شروع کردی ہے، شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کے باجود چاول کی بمپر فصل 9.6 ملین ٹن 10 ملین ٹن تک ہونے ہونے کا امکان ہے، کیوں کہ زیادہ پانی سے چاول کی فصل کو نقصان نہیں پہنچتا، تاہم بھارت کی عالمی چاول مارکیٹ میں واپسی کی وجہ سے پاکستان کو شدید مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس طرح ریٹ کم ملنے کی وجہ سے چاول کی فصل بھی گزشتہ سال کی طرح پرفارم نہین کرسکے گی۔
اس سے چاول کی سالانہ 3 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، ان عوامل نے پاکستان کی ذرعی معیشت پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں، ماہرین کا خیال ہے کہ رواں سال گندم اور کپاس کی پیداوار متاثر ہوگی، جس کی وجہ سے نہ صرف اندرونی توازن خراب ہوگا، بلکہ یہ تجارت کے بیرونی توازن پر بھی منفی اثر ڈالیں گے۔