Site icon اردو

توہین مسلمانوں کی نہیں ہوئی، ہندستان اور ہندو مذہب کی شاندار روایات کی ہوئی ہے… عبید اللہ ناصر

توہین مسلمانوں کی نہیں ہوئی، ہندستان اور ہندو مذہب کی شاندار روایات کی ہوئی ہے… عبید اللہ ناصر


سبھی مذاہب کے تہواروں پر آپس میں خوشیاں بانٹنے کا سلسلہ ہندوستان کی شناخت رہی ہے۔ لیکن یہ شناخت نظر بد کا شکار ہو گئی معلوم ہوتی ہے۔ ہر گزرتے ہوئے ماہ و سال میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

<div class=
" class="qt-image"/><div class=

سنبھل میں ترپال سے چھپائی گئی ایک مسجد، تصویر سوشل میڈیا

"/>

سنبھل میں ترپال سے چھپائی گئی ایک مسجد، تصویر سوشل میڈیا

ہولی اور رمضان نہ پہلی بار ایک ساتھ پڑے ہیں، اور نہ ہی ہولی اور جمعہ۔ صدیوں سے اس ملک میں اس طرح کے مواقع آتے رہے ہیں اور عوام نے خود ہی اپنی فہم و فراست سے خوش اسلوبی کے ساتھ تمام معاملات نمٹا لئے۔ کبھی کبھار اکا دکا ناخوشگوار واقعات ہوئے بھی تو یا تو علاقہ کے سنجیدہ لوگوں نے باہمی بات چیت سے معاملہ نمٹا دیا یا کبھی کبھار انتظامیہ کو مداخلت کرنی پڑی۔ یہ ایک فطری بات تھی کیونکہ پرانی کہاوت ہے کہ جہاں 4 برتن ہوں گے وہاں کھڑکنے کی آواز آئے گی ہی۔

ہم نے اپنے ہی یہاں یہ منظر دیکھا ہے کہ ہولی جمعہ کے دن پڑی تو مسجد کے باہر ہولیارے رنگ لیے بیٹھے ہیں۔ نمازی نکلے اور ہولیاروں سے سلام دعا کرتے ہوئے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ لیکن میرے والد مرحوم کو ہولیارے یونہی نہیں جانے دیتے تھے۔ پاپا بھی سب سے ملتے، عبیر گلال ماتھے پر لگا دیا جاتا۔ پھر وہ ہنستے ہوئے گھر آتے اور چہرہ صاف کر لیتے تھے۔ اس سے پہلے رات کو جب ہولی جلائی جاتی تھی تو ہولیارے پھاگن گیت گاتے تھے اور نام لے لے کر ہمارے گھر والوں کو تُک بندی میں گالی دیتے تھے، اور وہی ہولیارے شام کو انعام لینے بھی آتے تھے۔ اس دن اتنا کھانا پوری، کچوری، گجیا وغیرہ گھر آ جاتا تھا کہ گھر والوں سے زیادہ گھر کے جانوروں بیل، گائے، بھینس وغیرہ کی دعوت ہو جاتی تھی۔

سبھی مذاہب کے تہواروں پر آپس میں خوشیاں بانٹنے کا یہ سلسلہ ہندوستان کی شناخت رہی ہے۔ لیکن ہندوستان کی یہ شناخت نظر بد کا شکار ہو گئی معلوم ہوتی ہے۔ ہر گزرتے ہوئے ماہ و سال میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر اس سال تو حد ہی ہو گئی کہ اتر پردیش کے کئی شہروں میں مسجدوں کو ترپالوں سے ڈھکنا پڑا۔ اس ملک کے لئے اسں سے زیادہ شرمناک منظر اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ عمل صرف ہندوستان کی شناخت کو ملیامیٹ نہیں کر رہا ہے، بلکہ یہ ہندو مذہب کی اصل شناخت ’سرو دھرم سمبھاؤ‘ (ہر مذہب کی عزت)، ’واسودیو کٹمبکم‘ (ساری دنیا ایک کنبہ ہے)، باہمی رواداری، امن پسندی، امن بقائے باہم کو بھی شرمندہ کر رہا ہے۔ کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہندو مذہب دنیا کا سب سے زیادہ لبرل مذہب ہے، جو ہر نظریہ، ہر سوچ و فکر کو سمو لینے کی بے مثال صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں کسی بھگوان کو ماننے والا بھی ہندو ہوتا ہے اور اسے نہ ماننے والا بھی، پوجا پاٹھ کرنے والا بھی ویسا ہی ہندو ہوتا ہے اور نہ کرنے والا بھی اتنا ہی ہندو ہوتا ہے۔ لیکن آر ایس ایس نے اس کی شناخت بگاڑ دی ہے۔ بقول آنجہانی وزیر اعظم وی پی سنگھ ’’ہندو مذہب ایک نرم و ملائم زرخیز مٹی جیسا ہے جس میں ہر طرح کے گل بوٹے کھلتے ہیں، مگر آر ایس ایس اس مٹی کو تپا کر اینٹ بنا رہا ہے، جس سے مسلمانوں کا سر پھوڑا جا سکے۔ آر ایس ایس صرف ہمارے آئین کی ہی مخالف نہیں ہے، وہ ہندو مذہب کی اصل شناخت کی بھی دشمن ہے۔‘‘

ہندستان میں 2014 یعنی ’مودی یُگ‘ کے آغا ز سے بہت کچھ بدل گیا ہے، جس کی سب سے بڑی مار مسلمانوں پر پڑ رہی ہے۔ در اصل مودی کی شناخت ہی گجرات کے مسلم کش فسادات اور گجرات میں ان کی حکومت کی کھلی مسلم دشمنی سے ہے۔ آر اس اس کی 100 سالہ محنت و لگن اور جہد مسلسل سے مسلمانوں کے خلاف بویا گیا زہر کا بیج ایک تناور درخت بن گیا ہے۔ سونے پر سہاگہ اسے ایسی حکومت کی سرپرستی مل گئی جس نے میڈیا اور عدلیہ سمیت سبھی آئینی اداروں پر آکٹوپس جیسی گرفت بنا لی ہے۔ مودی کی دیکھا دیکھی ہر سیاسی لیڈر کو لگنے لگا کہ آج ہندوستانی سیاست میں آگے بڑھنے کا سب سے کامیاب تیر بہ ہدف نسخہ مسلم دشمنی ہے، اور پھر جیسے اس کی مقابلہ آرائی شروع ہو گئی۔ ویسے تو اس میدان میں ایک سے ایک قابل کھلاڑی کودے، یہاں تک کہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے اپنی برسوں پرانی وابستگی اور وہاں ملنے والے عہدوں و ترقیوں وغیرہ کو بھول کر بھگوا بریگیڈ میں شامل ہو گئے، لیکن ان سب سب سے آگے نکل گئے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ۔ ان کا پس منظر پہلے ہی جارحانہ فرقہ پرستی سے ہی عبارت رہا ہے اور اب انہوں نے کھلے عام ’ٹھونک دو‘، ’مٹی میں ملا دو‘ جیسے احکام دے کر اتر پردیش کی سرزمین کو قتل گاہ بنا دیا۔ ویسے تو اس کا شکار بہت سے غیر مسلم بھی ہوئے لیکن سب سے زیادہ اور آبادی کے تناسب سے سرفہرست مسلمان ہی ہیں۔

یوگی کی اس بارے میں تعریف کی جانی چاہیے کہ وہ اپنی کھلی فرقہ پرستی اور جانبداری کو چھپاتے نہیں، بلکہ تمام آئینی اصولوں اور آئین ہند سے وفاداری اور اس پر عمل کرنے کے حلف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کھل کے فرقہ وارانہ کارڈ کھیلتے ہیں، کھل کر مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے مکانوں پر بلڈوزر چلوا کر انہوں نے اپنی امیج ’بلڈوزر بابا‘ کی بنا لی اور یہ ان کا برانڈ بھی بن گیا۔ اتر پردیش سے باہر بھی یہ برانڈ سنگھی ہندوؤں میں اتنا مقبول ہوا کہ دوسری ریاستوں میں بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ بھی اس کی ہی نہیں بلکہ کھلے عام فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کے ساتھ ساتھ کٹر ہندو نوجوانوں کو کھل کر مسلمانوں سے دشمنی نکالنے کی چھوٹ دینے کی تقلید کرنے لگے۔ آج ہر بی جے پی حکمراں ریاستوں میں مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ بقول رکن پارلیمنٹ عمران مسعود مسلمان گھر میں رہے تو سنگھی لمپٹ مار دیتے ہیں، اور گھر سے باہر نکلے تو پولیس مار دیتی ہے۔ مسجدیں، درگاہیں، خانقاہیں، مدارس وقف املاک… کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ کہیں بھی کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے، اور پولیس الٹے انھیں کو ملزم بنا کر جیل میں ٹھونس سکتی ہے۔ نازی جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا تھا، وہ سب آج ہندوستان میں ان ریاستوں میں ہو رہا ہے جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔ در اصل آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹر منجے ہٹلر اور اس کی یہودیوں کی نسلی تطہیر و مسولینی کی نوجوانون کو لمپٹ بنانے کی پالیسی سے بہت متاثر تھے۔ انہوں نے اسپین سے مسلمانوں کے انخلا کی تاریخ کو بھی بہت دلچسپی سے پڑھا تھا۔ پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد جرمنی جا کر وہ ہٹلر سے مل کر اس سے کچھ سیکھنا چاہتے تھے، مگر یہ ملاقات نہیں ہو سکی۔ حالانکہ اٹلی جا کر انہوں نے مسولینی سے ملاقات کر کے کافی کچھ سیکھا اور پھر ہندوستان واپس آ کر نازی پارٹی اور فاسسٹ پارٹی کا مرکب آر ایس ایس کی داغ بیل ڈالی۔

ہندوستان میں گزشتہ 10 برسوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے عالمی برادری میں ’گوتم، گاندھی، نہرو‘ کے ہندوستان کی جو شبیہ بنی تھی اور جو آج بھی ہندوستان کی شناخت ہیں، اس کو گہرا دھچکا لگا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی دیگر ملکوں میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والی کمیٹی نے ہندوستان کے حالات اور اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اسں پر مسلسل نگرانی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ جمہوریت، مذہبی اور شخصی آزادی، میڈیا کی آزادی وغیرہ میں ہندوستان کی عالمی رینکنگ نچلی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ یہاں تک کہ ’جینوسائیڈ واچ‘ نام کی تنظیم نے 5-4 سال قبل آگاہی دی تھی کہ دنیا میں نسل کشی کے جو 10 مراحل ہوتے ہیں، ہندوستان ان میں سے 8 مراحل پار کر چکا ہے۔ مگر ان سب سے بے فکر بی جے پی لیڈران سیاسی فائدہ کے لیے آئین ہند ہی نہیں بلکہ خود ہندو مذہب کی شاندار روایت کو پامال کر رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آر ایس ایس جس مذہب کی پیروی کروا رہا ہے، وہ ہندو مذہب ہے ہی نہیں۔ اسی فرق کو راہل گاندھی بار بار ظاہر بھی کر رہے ہیں کہ سنگھ پریوار کے ہندوتوا سے اصل ہندو مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کٹر ہندو فرقہ پرست عناصر خوشیوں اور رنگوں کے تہوار ہولی پر مسجدوں کو ترپالوں سے ڈھک کر بھلے ہی خوشیاں منا لیں، بھلے ہی وہ یہ سوچ کر خوش ہوں کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک اور ذہنی اذیت پہنچا دی، ان کو ہندوؤں کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کر دیا، اپنے پیروں پر ان کی ناک رگڑوا دی، لیکن دراصل انہوں نے اصل ہندو مذہب اور ہندوستان میں ’کثرت میں وحدت‘ کی شاندار روایت کو سر بازار رسوا کیا ہے۔ تاریخ ان کے اس جرم کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ انہوں نے ہمیشہ کے لیے اپنی گردنوں میں ذلت کا طوق ڈال لیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔






Source link

Share this:

Exit mobile version