زہرا داؤدی نے والد کی نگرانی اور حوصلہ افزائی کے سبب اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ان کی شادی تحریک آزادی کی معروف جوڑی شفیع داؤدی اور زبیدہ بیگم داﺅدی کے لائق فرزند حبیب داؤدی ایڈوکیٹ سے ہوئی تھی۔
زہرا داؤدی
زہرا داؤدی
بیگم زہرا داؤدی کی نس نس میں حب الوطنی اور خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ آخر ی دم تک اپنی تحریروں کے ذریعے قوم کے تئیں اپنی خدمات انجام دیتی رہیں۔ ان کی پیدائیش چھپرا صوبہ بہار کے ایک محب الوطن مولانا اصغر علی کے گھر 16 مارچ 1923ء کو ہوئی، جن کے نزدیکی مراسم تحریک آزاد ی کے عظیم رہنما مولانا آزاد اور راجندر پرشاد وغیرہ سے تھے۔ چنانچہ گھر کے حب الوطنی والے ماحول کا اثر زہرا داﺅدی پر پڑنا لازمی تھا۔
زہرا داؤدی نے والد کی نگرانی اور حوصلہ افزائی کے سبب اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ان کی شادی تحریک آزادی کی معروف جوڑی شفیع داؤدی اور زبیدہ بیگم داﺅدی کے لائق فرزند حبیب داؤدی ایڈوکیٹ سے ہوئی۔ گھر کے بعد سسرال کے ماحول نے بھی ان کے انقلابی تیور اور حب الوطنی میں پر لگا دیے۔ وہ اپنی ساس زبیدہ بیگم داﺅدی کے ہمراہ برطانوی سامراج کے خلاف عوامی اجلاس میں شریک ہوتی تھیں اور خود بھی خواتیتن کے مساوی حقوق کے لیے متعدد اجلاس کا انعقاد کیا کرتی تھیں۔ بعد ازاں ان کا رخ کمیونزم کی طرف جھک گیا اور انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت اختیار کر لی، نیز پارٹی کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک رہنما کی حیثیت سے پور ی دنیا کا دورہ کیا۔
1965 میں فرقہ وارانہ تشدد بھڑک اٹھا جس کے تناظر میں زہرا کا خاندان پاکستان ہجرت کر گیا۔ لیکن وہ وہاں بھی خاموش نہیں بیٹھیں اور عالمی سطح پر حقوق انسانی کے لیے برابر لڑتی رہیں۔ ایک انقلابی خیالات کی حامل خاتون ہونے کے سبب زہرا کو متعدد گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد ازاں زہرا پاکستان سے کینیڈا ہجرت کر گئیں اور وہاں جا کر تصنیف و تالیف میں مصروف ہو گئیں۔ ان کے تصنیفی ذوق و شوق کے سبب متعدد کتابیں منظر عام پر آئیں۔ بیگم زہرا داؤدی 2 ستمبر کو دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ لیکن افسوس صد افسوس ان کی سرفروشانہ قربانیاں تاریخی صفحات میں گم ہو گئیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔