کوفے کے بد لے ہو ئے حالا ت اور حضرت مسلم بن عقیلؓ کی شہادت کی خبر کے بعد آپؓ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ اب ہمیں واپس ہونا چاہیے یا آگے چلنا چاہیے۔ سب کی را ئے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ منزل مقصود کی طرف بڑھنا چاہیے۔
غرض یہ کہ اہل بیت کرامؓ کے قافلے کا سفر جاری رہا۔ اِدھر ابن زیاد کو خبر ملی کہ حضرت امام حسینؓ کوفہ پہنچنے والے ہیں۔ چناںچہ اس نے ایک بڑا لشکر روانہ کیا اور اسے ہدایت کی کہ امام حسینؓ کو کوفہ میں داخل نہ ہو نے دیا جائے، بل کہ کسی ایسے جنگل میں اُترنے پر مجبور کیا جائے جہاں ان کوکو ئی آرام نہ مل سکے اور دریا کا کنارہ بھی قریب نہ ہو۔
حضرت امام حسینؓ جب منز ل سُراۃ پہنچے تو دوپہر کے وقت آپؓ نے اس بڑے لشکر کو اپنی طرف بڑھتے ہو ئے دیکھا۔ لشکر قریب ہوا تو آپؓ نے معلوم کیا لشکر کا سردار کون ہے؟ بتایا گیا کہ حُر بن یزید ریاحی اس لشکر کا قائد ہے۔ آپؓ نے حُر کو بلایا اور حال معلوم کیا۔ حُر نے کہا: ’’مجھے ابن زیاد نے اس غرض سے رو انہ کیا ہے کہ میں آپ کو بیابان جنگل میں رو ک دوں۔‘‘ آپؓ نے فرمایا: ’’لیکن میں تو خود کوفے میں نہیں آیا، بل کہ مجھے یہاں کے لوگو ں نے بلایا ہے، میں ان کا مہمان ہوں، مجھے ان کے پاس جانے دو، اگر عبداﷲ ابن زیاد کو میر ے کوفہ میں رہنے پر کچھ اعتراض ہوگا تو میں اس سے ملاقات کرکے خود فیصلہ کرلو ں گا اور اگر کوفہ میں میرا داخل ہونا بھی پسند نہ ہو تو میں یہیں سے واپس چلا جاتا ہوں اور اگر کسی وجہ سے مکہ میں بھی میرا رہنا گوارہ نہ ہو تو میں کسی دوسری جگہ بھی جانے کو تیا ر ہوں۔‘‘ اسی کے ساتھ آپؓ نے حُر کو کوفیوں کے خطوط بھی دکھائے۔ حُر نے ابن زیاد کو حضرت امام حسینؓ کی تمام باتوں کی خبر کی۔ لیکن ابن زیاد نے امام حسینؓ کی کسی بات کو قابل غور نہ سمجھا اور حُر کو آپؓ کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیا اور کہا یا تو حسین بن علیؓ یزید کے ہاتھ پر بیعت کا اعلان کریں ورنہ اُن سے مقابلہ کیا جائے اور میر ے دربار میں اُن کا سر پیش کیا جائے۔
حضرت امام حسینؓ نے جب ابن زیاد کا یہ جواب سنا تو آپ کو حالات کا اندازہ ہوگیالیکن حُر نے کہا کہ میں آپ کو واپس نہیں ہونے دوں گا۔ پھر آپؓ نے کسی قریبی آبادی میں اتر نے کا فیصلہ کیا۔ لیکن حرُ نے آپ کو ایک ایسے میدان میں پہنچا دیا جس سے دریا ئے فرات بہت دور تھا اور کہا کہ آپ یہاں اُتر جائیں۔ مجبوراً آپ یہاں اترے اور خیمے لگا دیے۔ یہ2 محرم61 ہجری کا دن تھا۔ دوسرے ہی دن اس چھوٹے سے قافلے کے سامنے ایک بڑا لشکر آپہنچا۔ پتا چلا کہ اس لشکر کا سپاہ سالار عمرو بن سعد ہے۔ ابن سعد حکومت و دولت کے لالچ میں آکر نواسۂ رسول ﷺ کے مقابلے میں آیا اور اس نے جہنم کو اپنا ٹھکانا بنایا۔
حضرت امام حسینؓ نے عمرو بن سعد سے بھی گفت گو کرکے حالات کو بہتر بنا نے کی کو شش کی۔ لیکن عمر و نے ابن زیاد کے احکامات کے مطابق اہل بیت کرام پر سختی شروع کر دی۔ یہاں تک کہ 7 محرم کو پانی بھی بند کردیا گیا اور اس طرح عورتیں بچے سب پینے کے لیے پانی کو ترس گئے۔
آپؓ نے عمرو ابن سعد کو ہرچند سمجھانے کی کو شش کی، جس میں کام یابی نہ ہوسکی اور 9 محرم کو اُن بدبختوں نے نواسۂ رسول ﷺ سے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ حضرت امام حسینؓ کے پاس جنگ کا کوئی خاص سامان نہ تھا، بس وہی چند تلواریں وغیرہ تھیں جن کو اہل عرب اپنی عادت کے مطابق سفر میں اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ آپؓ نے اسی سامان کو ٹھیک کیا اور اپنے رفقاء اور اہل و عیال کے ساتھ ساری رات خدا کی عبا دت اور دعا کر تے گزاری۔ صبح نماز فجر کے بعد دشمن نے مقابلے کا اعلان کر دیا۔ آپؓ نے بھی اپنے جاں نثاروں اور مجاہدوں کی صفیں ٹھیک کیں۔ اس قافلے میں صرف بتیس افراد سوار تھے اور باقی چالیس پیدل تھے اس طرح کل بہتّر مجاہد تھے۔
حضرت اما م حسینؓ نے جنگ شروع ہو نے سے پہلے ایک تقریر کی اور دشمن کو اس کے غلط اقدام سے روکنے کی پو ری طرح کوشش کی۔ لیکن عمر و ابن سعد نے جنگ شروع کر نے کا حکم دیا اور دشمن کی طرف سے تیر برسنا شروع ہوگئے اور جنگ باقاعدہ شروع ہوگئی۔ امام حسینؓ کے جاں نثار رفقاء اگرچہ تعداد میں کم تھے لیکن ایمان میں پختہ تھے لہٰذا ان چند مقدس ہستیوں نے ہی دشمن کے عظیم لشکر کو تھوڑی ہی دیر میں تباہ کر ڈالا اور خود بھی اسلام کے محافظ بن کر دنیا سے ایسے رخصت ہو ئے کہ ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید ہوگئے۔ کیوں کہ شہید کو مردہ نہیں کہا جاسکتا ہے اور نہ خیال کیا جاسکتا ہے۔ ان شہدا میں خاص طور پر قابل ذکر حضرت بریرؓ، حضرت وہب ابن عبد اﷲ کلبیؓ، مسلم ابن عوسجہؓ، حضرت عبداﷲ ابن امام حسینؓ، قاسم ابن امام حسنؓ، حضرت عباس علم دارؓ تھے۔
ان تمام جاںنثاروں کے بعد بالآخر وہ وقت آگیا کہ خیمے میں عورتیں بچے اور بیمار زین العابدینؓ تھے اور دشمن کے مقابلے پر تن تنہا نواسۂ رسول ﷺ۔ آپؓ نے خود دشمن کے مقابلے کے لیے فیصلہ کیا اور صبر و استقامت اور شریعت کی پابند ی کی نصیحت کرنے ایک مرتبہ خیمے میں تشریف لا ئے، سب سے ملے اور آخری دعائیں دے کر نہ صرف خیمے سے بل کہ دنیا سے رخصت ہو نے کے لیے چلے۔ لیکن چلتے چلتے بہن نے کہا معلوم نہیں آپؓ کے بعد ہم پر کیا مصیبتیں آئیں۔ آپ ایک مصیبت کم کرتے جائیے اور وہ یہ کہ آپ کے صاحب زادے علی اصغرؓ پیاسے بلک رہے ہیں، ان کو دشمن کے سامنے پیش کرکے پانی کے چند قطر ے ان کے منہ میں ڈالوا دیجیے۔
حضرت امام حسینؓ نے بہن کی خواہش پو ری کر نے کے لیے ننھے علی اصغرؓ کو گود میں لیا اور دشمن سے کہا تمہاری دشمنی مجھ سے ہے، اس بچے نے تو تمہارا کچھ نہیں بگاڑا، دریائے فرات کے پانی کے چند قطرے اس کو دے دو۔ لیکن جواب میں ایک ایسا تیر آیا جو شیر خوار پیاسے علی اصغرؓ کی گردن میں لگتا ہوا حضرت امام حسینؓ کے ہاتھ میں پیوست ہوگیا۔ آپؓ نے تیر نکالا تو علی اصغرؓ کے حلق سے خون جاری ہوگیا اور یہ معصوم پیاسا شہید ہوکر ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید ہوگیا۔ واپس آکر بچہ بہن کو دیا اور کہا صبر کرو میرے پیارے علی اصغرؓ کو دشمن نے تو پانی نہ دیا، لیکن نانا جان نے حوض کوثر سے سیراب کر دیا۔
آپؓ نے اس مصیبت کو بھی برداشت کیا اور اب میدان جنگ کی طرف چلے۔ حضرت امام حسینؓ نے میدان میں آکر بھی سمجھا نے کی کوشش کی۔ لیکن دشمن نے کچھ سوچنے کے بجائے آپ پر تیر برسانے شروع کر دیے۔ مجبوراً حضرت امام حسین ؓ کو بھی تلوار نکالنا پڑی۔ شیر خدا حضرت علیؓ کا شیر جس طرف رُخ کرتا دشمن کی لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے، دشمن یہ حالت دیکھ کر گھبرا گیا اور آخرکار آپؓ پر چاروں طرف سے تیر برسنے لگے۔ آپؓ کے مقدس جسم پر تینتیس نشان تیروں کے اور چونتیس زخم تلواروں کے آئے، جس سے آپؓ نڈھال ہوکر زمین پر تشریف لائے۔ خدا کے دربار میں سجدۂ شکر ادا کیا اور جام شہادت نو ش فرما کر اپنے نانا جان ﷺ سے جاملے ۔
یہ محرم کی 10 تاریخ 61 ہجری بہ مطابق10اکتوبر680ء کا ہول ناک ترین دن تھا۔ اس جنگ میں آپؓ کے ساتھ بہتّر مجاہد شہید ہوئے، جن میں اٹھارہ خاندان نبوتؐ کے پھول تھے۔
اﷲ تعالیٰ امام حسینؓ اور دیگر شہدائے کربلا کی طرح ہمیں اور تمام مسلمانوں کو بھی دین کی پابند ی اور اسلام کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے اور ان حضرات کے صدقے میں ہر قسم کی آفات و بلیات سے محفوظ رکھے۔ (آمین )