Site icon اردو

بی.جے.پی کی سیاست اور بھارت کے مسلمان

بی.جے.پی کی سیاست اور بھارت کے مسلمان

[ad_1]

بی.جے.پی کی سیاست اور بھارت کے مسلمان

آر ایس ایس کی بنیاد 1925ء میں کیشور راؤ بلی رام ہیڈ گوار نے رکھی تھی اور31 جنوری 2009ء تک آر ایس ایس کی تیس ہزار پندرہ مقامات پر تیتالیس ہزار نو سو پانچ برانچس قائم ہو چکی تھیں۔آر ایس ایس کے پاس اس وقت پچیس سو پرچارک بھی تھے جو اس تنظیم کے لیے فل ٹائم ممبران کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔چار ہزار نو سو چونسٹھ مقامات پر آر ایس ایس کے ہفت روزہ اور چار ہزار پانچ سو سات مقامات پر ماہانہ اجتماعات منعقد ہوتے تھے۔انہیں ہفت روزہ پروگرام اور اجتماعات میں نئے نئے منصوبے تشکیل دیے جاتے اور اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہونچانے نیز اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے اپنی دانست میں بہتر سے بہتر لائحہ عمل تیار کیے جاتے تھے۔اب تک ماضی میں آر ایس ایس کے اشارے پر اسلام دشمن عناصر نے جو فسادات برپا کیے وہ انہیں اجتماعات کی منصوبہ بند سازشوں کا نتیجہ تھے۔مسلم املاک کو تباہ کرنا،مسلمانوں کو مرعوب وخائف رکھنا،ان پر ترقی کی راہیں مسدود کرنے کی مسلسل سعی کرنا،مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا،ہندوستان میں ان کا جینا حرام کرنا اور جمہوری نظام میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کرنا یہ سب آر ایس ایس کی خفیہ پلانگ اور ان کے اجتماعات کی دین تھی۔

   بھارتیہ جنتا پارٹی آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والی ایک سیاسی جماعت ہے جس کی بنیاد 1980ء میں رکھی گئی،جب بھارتیہ جنتا پارٹی آر ایس ایس کی قائم کردہ جماعت ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کی کتنی بڑی ہمدرد وغمگسار اور اقلیتوں کی کتنی معاون ومددگار ہوگی۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہندومسلم فساد برپا کرا کے مسلمانوں کی مالی اقتصادی پوزیشن کو تباہ و برباد کیا گیا، سرکاری ملازمتوں خواہ کورٹ کچہری ہو یا کوئی بھی شعبہ ہو تمام شعبہ جات میں مسلمانوں کی نمائندگی کم سے کم کردی گئی،یہ سب ایک سازش کے تحت ہوتا رہا۔اب جب مسلمان ہر طرح سے بے یار ومددگار،ہر اعتبار سے کمزور ہوگیا تو اس کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا جانے لگا،کہیں مساجد کے سروے کرا کر مسلمانوں کے جوش وجذبے کا امتحان لیا گیا تو کہیں اسلام اور بانئی اسلام کے خلاف زہر افشانی اور توہین کرنے والوں کی حاصلہ افزائی کرکے ایمانی حمیت کا جائزہ لیا جانے لگا،گزشتہ چند ماہ یہ ہوا خیزی کی گئی کہ مدارسِ اسلامیہ دہشت گردوں کے اڈے ہیں،جب یہ بات میڈیا کے ذریعے عام سے عام تر ہوگئی تو اب داڈھی ٹوپی والوں کے ساتھ اسکول وکالج کے طلبہ اور عام مسلمانوں کو دہشت گرد کہا جانے لگا اور یہ بات کوئی غیر ذمہ دار نہیں بلکہ اسی پارٹی کے افراد ہی کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ایسا گھناؤنا نظریہ ذمہ دار سیاست دانوں کا ہوگا تو جو خالص ہندوتو نظریہ رکھتا ہوگا اس کا عالم کیا ہوگا؟یہی وجہ ہے کہ مسلم مخالف نظریہ رکھنے والے لوگ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ایک معروف اخبار لکھتا ہے؛

     ،،گزشتہ کئی سالوں سے بجرنگ دل انسانوں کے خون کی ہولی کھیل رہا ہے،مکانوں کو جلا رہا ہے،دکانوں کو لوٹ رہا ہے،مسجدیں منہدم کر رہا ہے،بم دھماکہ کر کے ہنستی کھیلتی آبادی کو قبرستان میں تبدیل کر رہا ہے،ننھے ننھے پھول جیسے بچوں کے سروں سے ان کے والدین کا سایہ چھین رہا ہے،اس کے کارکنان قتل،چوری، رہزنی،فرقہ وارانہ فسادات برپا کرنے اور عورتوں کی عزتیں لوٹنے کے مجرم ہیں،اخبار مزید لکھتا ہے کہ بجرنگ دل نے اب تک جتنے جرم کئے ہیں ان کی فہرست طویل ہے اور ان میں سے بیشتر پردہ خفا میں ہیں۔مگر جو کھل کر عوام کے سامنے آچکے ان کی تفصیلات کے لیے بھی ایک دفتر کی ضرورت ہے،،

   یہ سب کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اسلام دہشتگردی کا مذہب ہے۔میں کہتا ہوں کہ پوری دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں ان تمام کے بنیادی اصولوں پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ صرف مذہبِ اِسلام امن وشانتی کا مذہب ہے۔کیونکہ اِسلام کا معنیٰ ہی سلامتی و شانتی ہے۔ذرا تاریخ کے اوراق کی روگردانی کریں کہ جس وقت اسلام کا سورج دنیا میں طلوع ہوا تھا کیا اس حقیقت کو کوئی بھلا سکتا ہے کہ اسلام سے پہلے دنیا میں دہشتگردی انتہا کو پہنچ چکی تھی، انسانیت کا جنازہ نکل چکا تھا،تاریخ کے اوراق آج بھی گواہ ہیں کہ اگر کوئی بچہ یتیم ہو جاتا تو لوگ نہایت بے دردی کے ساتھ اس کے مال واسباب کو چھین کر گھر سے بے گھر کر دیا کرتے تھے،اگر کوئی لڑکی کسی کے یہاں پیدا ہوتی تو فوراً اسے زندہ درگور کر دیا جاتا،اگر کسی عورت کا شوہر انتقال کر جاتا تو اس عورت کے ساتھ نہایت ہی ظالمانہ سلوک ہوتا اور اس کو معاشرے میں رہنے کا حق نہیں دیا جاتا باوجود اس کے کہ اس کے اندر ابھی جینے کی تمنائیں انگڑائیاں لیتیں مگر اسے شوہر کی جلتی ہوئی چتا پر جلاکر مستی کا نام دیا جاتا تھا، غرضیکہ کوئی ایسا ظلم نہیں تھا جو لوگ نہ کرتے رہے ہوں، ٹھیک ایسے ماحول میں پیغمبر نے پرچمِ اسلام بلند فرمایا اور پوری دنیا سے دہشت وبربریت کا خاتمہ کیا،تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آج تک اِسلام کی کوئی ایسی کتاب نہیں جس میں دہشتگردی کو امر مستحسن کہا گیا ہو یا کوئی بھی سچا مسلمان دہشتگردی میں شامل رہا ہو۔

    اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آر ایس ایس کی جانب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو پورا تعاون اور حمایت حاصل ہے ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ پارٹی اصل میں آر ایس ایس ہی کی دین ہے۔ یہ بات ہر ایک پر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہمیشہ مسلمانوں کو ایذا پہنچائی اور مسلمانوں کے خلاف جارحانہ اقدامات کر کے ان کی لاشوں کے انبار پر اپنے اقتدار کی بساط جمائی ہے۔مندر مسجد کی سیاست،ہندو مسلم کی سیاست،ذات پات کی سیاست کے سہارے اور مسلم کش فسادات کے ذریعے اپنا وجود باقی رکھنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے کب مسلمان یا جمہوریت کے مفادات کا خیال رکھا؟اسے اپنا وجود بچانے اور ایوان اقتدار میں آنے کے لئے ہندوؤں کے جذبات بھڑکاتے رہنا اور اپنے پروگراموں،اپنی حرکات وسکنات اور اپنے جارحانہ مسلم کش بیانات کے ذریعے ہندؤں میں سیدھے سادھے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کی مسموم فضا تیار کرنا ہے۔تاکہ ہندو متحد ہو کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔بھارتیہ جنتا پارٹی خوب جانتی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کامیابی تو بڑی بات اپنا وجود تک بچانا مشکل ہو جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ انتخابات قریب آتے ہی سوچی سمجھی منظم سازش کے تحت مسلمانوں کے خلاف زہریلی زبان استعمال کر کے ناقابلِ برداشت اور غیر آئینی و غیر جمہوری رویہ اختیار کیا جانے لگا ہے۔کہیں مسلمانوں کو سر عام مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہے تو کہیں مذہب کے خلاف گستخانہ جملوں کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔جس سے ہندومسلم منافرت کی مسموم فضا تیار ہو رہی ہے۔اس طرح ہندوؤں کو بھڑکا کر ایک زبردست کشیدگی اور مسلم مخالف عام لہر چلانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی جانتی ہے کہ اس طور پر مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے کافرانہ ومعاندانہ جذبات بھڑکا کر پورے اتر پردیش میں سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہےکیونکہ مسلمان نہ ماضی میں ایک ہوا،نہ اب ایک ہے اور نہ ایک ہونے کی امید کی جاسکتی ہے،ایسے میں ہندومسلم کارڈ کھیل کر بھارتیہ جنتا پارٹی پورا پورا سیاسی فائدہ اٹھانے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہے۔

   ایسے ماحول میں مسلمانوں نے اگر سیاسی شعور وتدبر سے کام نہ لیا اور یوں ہی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں اور محلے محلے کی جماعتوں میں بٹے رہے تو ضرور دشمن اپنے مقصد زریں میں کامیاب ہو جائے گا اور مسلمانوں کے ہاتھ سوائے ندامت و افسوس کے کچھ نہ آئے گا۔اس وقت مسلم قائدین کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ مسلم مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلم قوم کی شیرازہ بندی میں نمایاں رول ادا کریں،مسلم عوام الیکشن کے موقع پر نہایت کشمکش کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کو انہی کے مسلم قائدین طرح طرح کے مشورے دیتے ہیں، کوئی کسی امیدوار کو ووٹ دینے کی رائے دیتا ہے تو کوئی کسی امیدوار کو،جس کے نتیجے میں مسلم ووٹ تقسیم ہوکر بے وزن ہو جاتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم قائدین اب اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنے ذاتی مفاد پر اپنے عوام وقوم کے مفاد کو ترجیح دیں اور حتیٰ الامکان مسلم ووٹ کو بٹنے سے بچائیں اور عام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ الیکشن کے موقع پر نہایت دانشمندی کے ساتھ باہمی اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے کسی سیکولر امیدوار کے حق میں اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال کریں اور اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے مخالف کو شکست فاش دینے کی بھرپور سعی کریں۔

[ad_2]

Source link

Exit mobile version