Site icon اردو

اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم


غزہ میں اسرائیلی فوج نے قتل عام جاری رکھا اور مزید تیس فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ جنوبی لبنان کے قصبے می فدون پر اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے پانچ ارکان شہید ہوگئے، خیام شہر پر بھی حملہ کیا گیا، جب کہ اسرائیلی طیاروں نے بیروت کی فضاؤں میں پروازیں کیے۔

فلسطینی تنظیم حماس نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد غزہ کے رہنما یحییٰ سنوار کو سربراہ نامزد کردیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ ان کے ملک نے ایران اور اسرائیل کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تنازع کو بڑھانے سے گریز کیا جائے۔

غزہ میں انسانیت سوز مظالم اور دہشت گردی کے عین بیچ دو ہمسایہ ملکوں کی سرزمین پر حملوں میں دو اہم لیڈروں کو قتل کر کے اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کو دعوت دی ہے۔ اسرائیل بین السطور تو یہی دعویٰ کرے گا کہ حزب اللہ کے لیڈر فواد شکر کو گولان میں حملے کے جواب میں مارا گیا ہے اور اسماعیل ہنیہ چونکہ حماس کی قیادت کر رہے تھے، اس لیے وہ ایک جائز ٹارگٹ تھے، لیکن اسرائیل یا اس کے پشت پناہوں کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوگا کہ ایران کے دارالحکومت تہران میں اس حملے کا کیا جواز تھا۔

اس اشتعال انگیزی سے اسرائیل نے ایک ایسے خود مختار ملک کو اس جنگ میں ملوث کیا ہے جو مشرق وسطیٰ کی جنگ میں براہ راست فریق نہیں ہے۔ کئی سرحدی تنازعات اور بھاری فوجی موجودگی والے علاقوں کی وجہ سے اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کی سرحدوں پر حالیہ پرتشدد واقعات سے قبل ہی کشیدگی پائی جاتی تھی۔ اب جب کہ امریکا نے بھی اس خطے میں اپنی عسکری قوت بڑھا دی ہے، چیلنج یہ ہے کہ اسرائیل اور حماس کے اس تنازع کو ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہونے سے روکا جائے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع کے موجودہ حالات کو سمجھنے کے لیے جب بھی تاریخ کی جانب دیکھا جائے گا تو اس میں پانچ جون 1967 کو شروع ہونے والی جنگ کا تذکرہ لازمی آئے گا۔

پانچ جون 1967 کو اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین شروع ہونے والی جنگ یوں تو صرف چھ دن جاری رہی تھی لیکن اس نے مشرقِ وسطیٰ اور عرب اسرائیل تنازع کے مستقبل کا رخ متعین کیا تھا۔ بعض تاریخ دان اور ماہرین کہتے ہیں کہ اسرائیل کو 1967 کی جنگ میں جو کامیابی حاصل ہوئی تھی وہ عرب اسرائیل تنازع کے حل کے لیے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی بلکہ اس نے صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ تاریخ پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق اس جنگ نے اسرائیل کے اپنے پڑوسی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی راہ بھی متعین کی اور ساتھ ہی امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات بھی ایک نئے دور میں داخل ہوئے۔

آج خطے کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھا جائے تو ایک بار پھر اس اہم واقعے کے سیاق و سباق اور اس میں حصہ دار بننے والی عالمی طاقتوں کے کردار پر نظر ڈالنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اسرائیل کے لبنان کے مختلف مذہبی اور سیاسی دھڑوں سے تعلقات کی تاریخ بہت پیچیدہ ہے۔ جب فلسطینی باغی گروپس نے 1960 کی دہائی کے اواخر سے جنوبی لبنان کے علاقوں کو بطور مرکز استعمال کرنا شروع کیا تو اسرائیل نے بھی لبنان کے اندر جوابی حملے کیے اور مقامی عسکریت پسندوں کے ساتھ اتحاد کر لیا جنھوں نے شام میں آباد فلسطینی پناہ گزینوں کا قتلِ عام کیا۔ اسرائیل 2000میں اپنی فوج اقوامِ متحدہ کی تسلیم کردہ ’بلیو لائن‘ پر لے گیا تھا تاہم اس نے شبعا فارمز نامی زمینی پٹی پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا۔ اگرچہ اسرائیل نے شام سے گولان کی پہاڑیوں کا کنٹرول لینے کے دوران ہی اس علاقے پر بھی قبضہ کیا تھا، تاہم لبنان کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقہ ہمیشہ سے لبنان کا حصہ رہا ہے۔

شبعا فارمز پر جاری تنازع کو جواز بنا کر حزب اللہ اسرائیل پر حملے کرتی آئی ہے جسے ایران اور شام نے اسرائیل کے خلاف ہتھیاروں اور وسائل سے اچھی طرح لیس کردیا ہے۔ 2006 میں حزب اللہ کے ایک حملے کے جواب میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کردیا تھا اور اس پر بمباری کی تھی، جس کے بعد سے اب تک دونوں فریقوں کے درمیان وقفے وقفے سے سرحد پر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ گزرے برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد حزب اللہ بلیو لائن کے پار اسرائیلی علاقوں پر کئی راکٹ حملے کر چکی ہے اور اس کی اسرائیلی فورسز (آئی ڈی ایف) کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

دنیا میں انسانی حقوق، ممالک کی خود مختاری اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے سارے دعوے دار، اسرائیل کی طرف سے تہران میں ایک پراسرار کارروائی کے ذریعے اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کرنے کے بجائے یہ اندازے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مشرق وسطی میں ’’بڑی جنگ‘‘ شروع ہونے کے کتنے امکانات ہیں۔ شاید یہ اندازہ لگانا اور دنیا کو کسی بڑی تباہی سے بچانا بھی اہم ہے لیکن جب بین الاقوامی چارٹر، انسانی حقوق اور باہمی احترام کا پرچم لے کر پوری دنیا پر دھونس جمانے والے ممالک ایک خود مختار ملک کی سرزمین پر ایک بزدلانہ اور اشتعال انگیز حملے میں ایک لیڈر کے قتل کی مذمت کرنے میں ناکام رہیں تو مان لینا چاہیے کہ یہ ایران کی ناکامی نہیں ہے بلکہ اسماعیل ہنیہ کا قتل درحقیقت انسانی اصولوں کی موت ہے۔ یہ قتل دنیا میں لاقانونیت اور من مانی کی ایسی بھیانک روایت کو مستحکم کرے گا۔

جب دنیا کی واحد سپر پاور امریکا، اسرائیل کے بھیانک ترین جرم کا حوالہ دینے سے پہلے بھی یہ یقین دہانی کروانا ضروری خیال کرتا ہے کہ امریکا اسرائیل پر حملہ کی صورت میں اس کا مکمل دفاع کرے گا۔ اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کی اصل وجہ امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے امن معاہدے پر بڑھتا ہوا اصرار ہے۔ بائیڈن چونکہ اب صدارتی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں، اس لیے وہ اسرائیل کو امن پر آمادہ کرنے کے لیے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہیں، جب کہ امریکا میں ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات کے سبب اسرائیل کی خواہش ہوگی کہ غزہ جنگ کو نومبر تک طول دیا جائے۔ نیتن یاہو کا اندازہ ہو گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر کے طور پر فلسطینی علاقے ہڑپ کرنے کے لیے اسرائیل کو زیادہ موقع دے گا۔ اس طرح غزہ کو مستقل طور سے ایک مقبوضہ علاقہ بنا لینے کی پالیسی پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا۔

حماس اور دیگر ذرایع ابھی سے امن بات چیت کو بھول جانے کی بات کر رہے ہیں۔ایران کے بارے میں امریکا اور اسرائیل کی دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لبنان، عراق، شام، بحرین اور فلسطین سمیت کئی ممالک میں ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور حمایت کے وسیع نیٹ ورک نے ایران کو مغربی دنیا میں دشمنوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے جب کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام روز اول سے اسرائیل، امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔ ان ممالک کی پوری کوشش ہے کہ ایران کسی طرح بھی ایٹمی طاقت نہ بن سکے مگر ایران عالمی پابندیوں کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے نیوکلیئر پروگرام کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اسرائیل کی حالیہ دہشت گردی کا مقصد ایران کو امریکی اور اسرائیلی مفادات پر حملے اور جوابی انتقامی کارروائیوں کے لیے اُکسانا ہے تاکہ امریکا اور اسرائیل کو ایران کی فوجی اور ایٹمی تنصیبات پر حملوں کا جواز مل سکے۔

امریکا پہلے ہی اپنا بحری بیڑہ اور درجنوں جنگی طیارے خطے میں بھیج چکا ہے اور کشیدگی میں اضافے کی صورت میں امریکا مزید بحری بیڑے اور جنگی طیارے خلیج فارس روانہ کرے گا۔ موجودہ صورتحال سے پاکستان بھی براہ راست متاثر ہوگا اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوسکتا ہے جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایران کو چاہیے کہ وہ امریکا اور اسرائیل کے بچھائے گئے جال میں نہ آئے اور نہ ہی انھیں ایسا کوئی موقع فراہم کرے جس سے ایران کو مزید نقصان اٹھانا پڑے۔ عرب میڈیا کے مطابق تہران میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد رہنما یحییٰ سنوار کو گروپ کا سربراہ نامزد کیا گیا ہے، یحییٰ سنوار 7 اکتوبر 2023سے اب تک غزہ میں موجود ہیں۔ سنوار نے جنگ کو لمبا پھیلایا، اس کا انھیں فائدہ ہوا۔ جنگ طویل ہوئی، سول آبادی کی مشکلات بڑھیں۔ شہری آبادی بچوں عورتوں کی ہلاکتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

اس کی وجہ سے اسرائیل پر شدید تنقید ہونا شروع ہوئی۔ یورپی ملکوں نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ خود اسرائیلی وزیر اعظم کے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سے وارنٹ جاری ہو گئے۔ اب کچھ ہفتوں سے صورتحال تبدیل ہو رہی تھی۔ اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے اس وقت بہت سخت عالمی دباؤ ہے۔ اسرائیل کو کسی معاہدے سے پہلے یہ تاثر لازمی دینا ہے کہ وہ جنگ جیت چکا ہے۔ یہ اسرائیلی بیانات اور کارروائیاں جنگ بندی سے پہلے اپنی کامیابی دکھانے اور بتانے کے لیے ہیں۔

ہنیہ کی شہادت پر اب ایرانی جواب اور اس کے نتائج بتائیں گے کہ مشرق وسطیٰ پر جنگ کے سائے پھیل گئے ہیں، یا امن کو موقع مل جائے گا۔اب نہ صرف حماس کو بدلہ لینے کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ ایران، حزب اللہ اور عراق اور یمن کے حوثی اور دیگر ایران نواز گروپ بھی اس میں شامل ہو جائیں گے۔ یہاں تک کہ قطر نے بھی اعلان کیا ہے کہ اس کا ثالثی کا کردار اسماعیل ہنیہ کے قتل سے مرگیا ہے۔ نیتن یاہو نے طویل عرصے سے خبردار کر رکھا ہے کہ اسرائیل خود ایران پر حملہ کرے گا تاکہ اسے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے،اسرائیل کی جارحانہ پالیسی کے سبب خطے میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔





Source link

Exit mobile version